80478 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
وراثتی جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ غیر منقولہ جائیداد کی مختلف قیمتیں ہوتی ہیں:
1. ایک ڈی، سی ریٹ ہوتا ہے، جوکہ ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے۔ اس ریٹ کے تقرر کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے کم قیمت پر رجسٹری نہیں کرائی جا سکتی۔ شاید اور بھی کئی مقاصد ہوں۔
2. ایک ریٹ ایف، بی، آر کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے، جوکہ ٹیکس کے مقاصد کے لیے ہوتا ہے۔
3. ایک مارکیٹ ریٹ ہوتا ہے، جوکہ ظاہر ہے فِکس نہیں ہوتا، اور عموماً پراپرٹی ڈیلر ایک ہی جائیداد کا مختلف ریٹ لگاتے ہیں۔ یہ ریٹ عموماً ڈی، سی ریٹ اور ایف، بی، آر ریٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔
اب اگر وراثتی جائیدادوں (دو مکان اور دو دوکانوں) کی تقسیم ورثاء یعنی تین بھائیوں اور گیارہ بہنوں کے درمیان کرنی ہو، لیکن ایک بھائی کے استعمال میں ایک مکان اور ایک دوکان ہے، دوسرے کے استعمال میں دوسری دوکان ہے، جبکہ تیسرے بھائی کے استعمال میں دوسرا مکان ہے۔ چنانچہ جس بھائی کے استعمال میں جو جائیداد ہے وہ اس کی مکمل ملکیت حاصل کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے مذکورہ جائیدادوں کی قیمتوں کا تعین کرکے دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خریدنا چاہتا ہے، تو قیمتوں کے تعین کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ اگر تمام ورثاء متفق ہوں تو کیا ڈی، سی ریٹ یا ایف، بی، آر ریٹ کے مطابق وراثتی جائیدادوں کی قیمتیں متعین کی جا سکتی ہیں؟ یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی قیمتوں کا تعین کرنا لازمی ہے؟
وضاحت: سائل نے بتایا ہے کہ مذکورہ جائیداد والد صاحب کے ترکے سے ملی ہیں، اور ورثاء میں والدہ بھی حیات ہیں، نیز تقسیمِ وراثت کا طریقہ بھی مطلوب ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ جائیداد کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اُس کو 136 حصوں میں تقسیم کرکے درجِ ذیل نقشے کے مطابق تمام ورثاء کو دے دیں:
نیز اگر کوئی وارث اپنا حقِ میراث کسی دوسرے وارث کو فروخت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس لیے اگر دوسرے ورثاء اپنا حق چھوڑ کر اُس کا عوض لینے پر راضی ہیں تو میراث (مکان و دوکان) لینے والے ورثاء اس کے بدلے میں بازاری قیمت ادا کر سکتے ہیں۔ البتہ اگر تمام ورثاء ڈی، سی ریٹ یا ایف، بی، آر ریٹ پر اپنے حصۂ میراث فروخت کرنے پر راضی ہیں تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن یہ قیمت اُس دن کے اعتبار سے طے کی جائے گی جس دن ورثاء سے ان کی جائیداد لینے کا معاہدہ ہوگا۔
ورثاء |
عددی حصے |
فیصدی حصے |
بیوہ |
سترہ حصے |
%12.5 |
بیٹا (1) |
چودہ حصے |
%10.29 |
بیٹا (2) |
چودہ حصے |
%10.29 |
بیٹا (3) |
چودہ حصے |
%10.29 |
بیٹی (1) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (2) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (3) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (4) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (5) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (6) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (7) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (8) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (9) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (10) |
سات حصے |
%5.14 |
بیٹی (11) |
سات حصے |
%5.14 |
ٹوٹل |
136 حصے |
%100 |
حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص:230):
"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء، لكن إذا تعلق حق الغير به، فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال."
مجلة الأحكام العدلية (ص:210):
"مال المتوفى المتروكة مشتركة بين الورثة على حسب حصصهم."
الدر المختار (642/5):
"(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة، وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له، (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له، (أو) على العكس، أو عن نقدين بهما، (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه، (قل) ما أعطوه (أو كثر)، لكن بشرط التقابض فيما هو صرف. (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح، (إلا أن يكون ما أعطى له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا. ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه. شرنبلالية وجلالية. ولو بعرض جاز مطلقا، لعدم الربا، كذا لو أنكروا إرثه؛ لأنه حينئذ ليس ببدل، بل لقطع المنازعة."
محمد مسعود الحسن صدیقی
دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
25/ذو القعدة/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |