021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی آمدنی کے لیے وقف کی ہوئی زمین کو کرایہ پر دینا
80780وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

صورت مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ’جمعہ مسجد‘ ویسما کے پاس زمین وقف کی ہوئی موجود ہے،لیکن اس میں صورت حال یہ ہے کہ صرف ایک ہی بڑی زمین جمعہ مسجد کے نام سے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے،باقی دوسری زمین جن فیملی والوں نے وقف کی ہے ان کی فیملی کے نام پر ہی چلی آ رہی ہے، لیکن اس کا قبضہ جمعہ مسجد کے پاس ہے اور اس کی آمدنی بھی جمعہ مسجد ہی لے رہی ہے۔یہ ساری زمین بہت سالوں پہلے وقف کی گئی ہے، جس وقت ہمارا گاؤں بالکل دیہات تھا اور صرف کھیتی باڑی ہی ہوتی تھی لیکن اب ہمارا گاؤں بڑے قصبہ میں تبدیل ہو گیا ہے اور قصبہ والوں کی بہت ساری زمین انڈسٹریز اور فیکٹری والوں نے لے لی ہے۔ مسجد کی کچھ زمین بھی انڈسٹریز اور فیکٹریوں کے درمیان میں واقع ہے ،اور کچھ زمین ایسی ہے جو مستقبل میں انڈسٹریز اور فیکٹریوں کے درمیان واقع ہو جائےگی، جس کی وجہ سے زمین کو نقصان ہو رہا ہے، اورکاشتکاری بھی برابر نہیں ہو رہی ، پھر یہ کہ پانی کا بھی مسئلہ رہتا ہے جس کی وجہ سے زمین آئندہ سالوں میں ناقابل کاشت ہو جائے گی۔اب ایک صورت یہ ہے کہ انڈسٹریز اور فیکٹری والے زمین کرائے پر مانگ رہے ہیں،اوردوسری صورت یہ ہے کہ بعض لوگ جتنی زمین ہےاس کی دوگنی یا تین گنا زمین کسی دوسری جگہ پر  دینا چاہتے ہیں یعنی انتقال  زمین کا کہہ رہے ہیں۔ برسوں پہلے زمین وقف اس لیے کی گئی کہ اس کی آمدنی سے مساجد کا نظام برابر چل سکے، اور موجودہ حالات میں یہ زمین ناقابل کاشت ہو جائے گی جسکی وجہ سے آمدنی نہیں ہوگی ، اور انڈسٹریز اور فیکٹری والے کو کرائے پر دینے سےبہت بڑی آمدنی ہوسکتی ہے، یا یہ کہ انتقال زمین سے دوگنی یا تین گنا  زیادہ زمین آسکتی ہے تو اس کی وجہ سےبھی آمدنی زیادہ ہو سکتی ہے۔لہذا آپ کے سامنے چند سوالات پیش خدمت ہیں جن کا جواب مطلوب ہے:

سوال نمبر۱: ہماری ایک زمین جو وقف بورڈ کے نام پر رجسٹر ہے، اس کو بیچ نہیں سکتے اور نہ اس کے بدلے اور زمین لے سکتے ہیں، لہذا صرف کرائے کی شکل رہ سکتی ہے ،تو اسمیں کن اصول اور شرائط کی بنیاد پر کرائے پر دی جا سکتی ہے؟ اور ہمارے یہاں پر فیکٹری اور انڈسڑریز والے کم از کم15 سال یا اس سے زائد کا ایگریمنٹ بناتےہیں اس سے کم کا نہیں ،لہذا زیادہ سالوں کا ایگریمینٹ پر زمیں کو کرایہ پر دینا درست ہے یا نہیں ؟

سوال نمبر۲: جو زمین واقف کی فیمیلی کے نام پر چل رہی ہے ،اس زمین کے بدلے دوسری زمین دو گنایا تین گنا کیا ہم لے سکتے ہیں؟ یا اس کو بھی کرائے پر دے سکتے ہیں ؟لیکن کرائے پر دینے میں سرکاری قوانین کی وجہ سے دقت اور پریشانی آئے گی، یعنی جوکرایہ ملے گا وہ سیدھا مسجد کو نہیں ملے گا، بلکہ جن کے نام پر زمین ہے ان کو ملے گا ،اور وہ لوگ مسجد میں پھر کرایا منتقل کریں گے، جس میں بھی قانونی پریشانیاں آ سکتی ہیں اور انتقال زمین میں جب دوسری زمین ملے گی جو ابھی فی الحال واقف کی فیملی کے نام پر رجسٹرڈ ہو گی پھر اسکو وقف بورڈ میں منتقل کردینگے مسجد کے نام پر، اس صورت میں وہ زمین ہمیشہ کے لئے مسجد کے نام پر ہی رہے گی تو اس کے بارے میں شریعت کا حکم کیاہےاور  اس کا کیا حل ہو سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مسجد کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جو زمینیں وقف کی گئیں تھیں جب تک ان سے فائدہ حاصل کرنا ممکن ہے، ان کو بیچنا یا کسی دوسری زمین سے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں جو زمین واقف کے خاندان کے ہی نام پر ہے اسے صرف کرایہ کی وصولی میں پریشانی کی وجہ سے تبدیل کرنا درست نہیں۔ اور دونوں زمینیں فیکٹریوں کو کرایہ پر دی جائیں، چاہے طویل مدت کے لیے ہی ہو۔ البتہ کرایہ بازار میں رائج اس طرح کی زمینوں کے کرایے جتنا ہو۔

حوالہ جات
البحر الرائق (5/ 223)
وفي الذخيرة سئل شمس الأئمة الحلواني عن أوقاف المسجد إذا تعطلت وتعذر استغلالها هل للمتولي أن يبيعها ويشتري مكانها أخرى قال نعم قيل إن لم تتعطل ولكن يؤخذ بثمنها ما هو خير منها هل له أن يبيعها قال لا. ومن المشايخ من لم يجوز بيعه تعطل أو لم يتعطل وكذا لم يجوز الاستبدال بالوقف وهكذا فتوى شمس الأئمة السرخسي.
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (6/ 143)
سئل شمس الإسلام الحلواني عن أوقاف المسجد إذا تعطلت وتعذر استغلالها هل للمتولي أن يبيعها ويشتري مكانها أخرى؟ قال: نعم، قيل: إذا لم يتعطل ولكن يوجد بثمنها ما هو خير منها هل له أن يبيعها؟ قال: لا، ومن المشايخ من لم يجوز بيع الوقف تعطل أو لم يتعطل، وكذا لم يجوز الاستبدال بالوقف، وهكذا حكى فتوى شمس الأئمة السرخي رحمه الله في فصل العمارة إذا ضعفت الأراضي الموقوفة عن الاستغلال والقيم يجد بثمنها أرضاً أخرى هي أكثر ريعاً أن له أن يبيع هذه الأرض ويشتري بثمنها ما هو أكثر ريعاً

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۴/محرم الحرام/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب