021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقلید مطلق کا حکم
81315علم کا بیانعلم کے متفرق مسائل کابیان

سوال

بعض لوگ مختلف مذاہبِ  فقہ کی کتابوں سے استفادہ کرکے عمل کرتے ہیں تو کیا یہ لوگ غیر مقلد نہیں ہیں؟ غیر مقلد کس کو کہتے ہیں ؟ کیا آج کے دور میں بغیر تقلید ائمہ اربعہ کے کسی مسئلہ پر عمل ممکن نہیں ہے یعنی اس کا عمل صحیح نہیں ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تقلیدکاشرعی مفہوم اورحکم:

عوام(غیر مجتہد) کےلیےاحکام شرعیہ  پرعمل کرنےمیں تقلیدکےبغیرکوئی چارہ نہیں،اس لیےکہ دین احکام الہیہ کی اتباع اورپیروی کانام ہےاوراتباع کامدارنبی صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام اورسلف صالحین سےنقل پر ہےاورچونکہ اکثراحکام شرعیہ میں بعض نصوص شرعیہ غیرصریح،یابعض غیرصحیح،یابعض متعارض  ہونے کی وجہ سے اجتہادواستنباط کی ضرورت بدیہی ہےاورقرآن وسنت کی گہری اوروسیع پہچان کےبغیراس کااہل ہرایک نہیں،لہذاغیرمجتہدکےلیےایسےاحکام  میں کسی مجتہدکی بات مانناضروری ہےاوراسی کوتقلیداوراتباع کہتےہیں،اورایسے طریقہ  پر عمل کرنے والا مقلد کہلاتا ہےاورجوشخص اجتہادکی اہلیت اور ضرورت کے بغیرازخودقرآن وسنت سے مسائل کااستنباط کرے یا کسی ایسے شخص کی پیروی کرے تو وہ غیر مقلد کہلاتا ہے،جیساکہ امام شوکانی اور اس کے پیرو کار،البتہ جوشخص مجتہدین کے اقوال میں سے اپنی پسند یا ترجیح کے مطابق اقوال کا چناؤ کرے وہ بھی درحقیقت مقلد ہے،لیکن ایسا شخص سلفی کہلاتا ہے اوراس کے حکم کے بارے میں درج ذیل تفصیل ہے۔

تقلید کی اقسام اور احکام:

تقلیدکی دوصورتیں ہیں:

(۱)شخصی یعنی کسی ایک متعین امام یا مجتہد  کی پیروی کرنا۔

(۲)تقلیدمطلق یعنی کسی مجتہد اور امام کو معین کئے بغیر ہرمسئلہ میں کسی بھی مجتہد کی رائے پر عمل کرنا۔

 ائمہ اربعہ کے مذاہب کی تدوین اورترویج سے پہلے  صحابہ کرام تابعین کے زمانہ میں تقلید کی دونوں صورتیں جاری ر ہیں،لیکن بعد میں مختلف اسباب کی وجہ سے تکوینی طور پر امت میں ان چار  ائمہ کےمذاہب کی تقلیدرواج پاگئی،لہذا اس کے بعد احکام شرعیہ میں رخصتوں کی تلاش اورسہولت پسندی اورخواہش نفس کی پیروی کا رجحان غالب ہونے کی وجہ سے (جوتجربات ومشاہددات سے ثابت بھی ہے۔)تقلید شخصی کے ضروری ہونے پرجمہورعلماءکااتفاق ہوگیا،لہذاعوام کےلیےبہرحال ایک فقہ کی پیروی لازم ہے،البتہ عالم متبحر(جودلائل میں قوت وضعف اورترجیح کےاصول کوجانتاہو۔)کےلیےاحکام شرعیہ میں رخصتوں اور آسانیوں کی تلاش اورخواہش نفس کی پیروی کے بغیر جملہ دیگر شرائط کی رعایت کر کے مختلف ائمہ دین کے اقوال میں سے دلائل کی بنیاد پرکسی قول کو بوقت ضرورت ترجیح دے کر عمل کرنےکی گنجائش ہے اوراگر یہ عمل احکام شرعیہ میں رخصتوں اور آسانیوں کی تلاش اورخواہش نفس کی پیروی کے ساتھ ہو تویہ اس کےلیےبھی جائز نہیں ،البتہ دونوں صورتوں میں عمل اپنی متعلقہ شرائط مکمل ہونے کی صورت میں درست ہوگا، ورنہ عمل بھی درست نہ ہوگا۔

( اس مسئلہ کی مزید تفصیل شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی کتاب"تقلید کی شرعی حیثیت" میں ملاحظہ ہو۔)

فی زمانہ فقہ مقارن کی صورت میں تقلید مطلق کاحکم:

 فقہ مقارن کا مطلب یہ ہے جیساکہ سؤال میں بھی لکھا ہے کہ  ہر مسئلہ میں مختلف  ائمہ مجتہدین  کےاقوال میں موازنہ کر کے ان میں کسی ایک کو اپنے  غور وفکر کے نتیجہ میں ترجیح دینا  جیساکہ بہت سے عرب علماء کا یہ طریقہ ہےاور یہ حضرات اپنے کو کسی ایک مجتہد کی طرف منسوب کرنے کے بجائے سلفی کہتے ہیں،لیکن حقیقت میں یہ فقہ مقارن کی صورت میں تقلیدمطلق ہےاور فقہاء متقدمین کی کتابوں میں اس طرز عمل کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے تمام مذاہب کو اس نظر سے جمع کیا ہو کہ ان میں سے ہر مسئلہ میں اپنے نزدیک راجح کو ترجیح دی جائے،لہذاہمارے علماء احناف بلکہ جمہور  اہل علم کے نزدیک  مذاہب اربعہ کی تدوین اوران میں اصحاب تخریج وترجیح کی تخریجات وترجیحات کے بعد اب عوام(غیرمجتہداورغیرمتبحرعالم)کےلیےیہ  طریقہ اختیار کرنا درست نہیں اورتقلید مطق کاتعامل اورعمومی جوازمذاہب اربعہ کی تدوین اور لوگوں میں دین کے باب میں رخصتوں کی تلاش اورسہولت پسندی اورخواہش نفس کی پیروی سے پہلے کی بات ہے،لہذااب بہت سے اہل علم نے اس طرز عمل کی عمومی اجازت کے خطرناک  ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔(مجموعۃ الفتاوی:ج۳،ص۱۹۶)البتہ ضرورت کے موقع پر اجتماعی غور وفکر کے ذریعہ کسی خاص مسئلہ میں  مستند اہل علم کی اجتماعی مشاورت یا فتوی کی صورت میں اس پر عمل کیا جاسکتا ہے ،لیکن  شخصی طور پر عوام یا ہر عالم کو عام حالات میں اس طرز عمل کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔

حوالہ جات
عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد (ص: 12)
لأن الناس لم يزالوا من زمن الصحابة رضي الله عنهم إلى أن ظهرت المذاهب الأربعة يقلدون من اتفق من العلماء من غير نكير من أحد يعتبر إنكاره ولو كان ذلك باطلا لأنكروه والله أعلم بالصواب انتهى
عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد (ص: 13)
اعلم أن في الأخذ بهذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة وفي الإعراض عنها كلها مفسدة كبيرة ونحن نبين ذلك بوجوه
الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف للدهلوي (ص: 70)
وبعد المئتين ظهر فيهم التمذهب للمجتهدين بأعيانهم وقل من كان لا يعتمد على مذهب مجتهد بعينه وكان هذا هو الواجب في ذلك الزمان
الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف للدهلوي (ص: 97)
مما يناسب هذا المقام التنبيه على مسائل ضلت في بواديها الأفهام وزلت الأقدام وطغت الأقلام منهاأن هذه المذاهب الأربعة المدونة قد اجتمعت الأمة أو من يعتد به منها على جواز تقليدها إلى بومنا هذا وفي ذلك من المصالح ما لا يخفى لا سيما في هذه الأيام التي قصرت فيها الهمم وأشربت النفوس الهوى وأعجب كل ذي رأي برأيه
 فما ذهب اليه ابن حزم حيث قال التقليد حرام ولا يحل لأحد أن يأخذ قول أحد غير قول رسول الله صلى الله عليه وسلم بلا برهان لقوله تعالى {اتبعوا ما أنزل إليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه أولياء} وقوله تعالى {وإذا قيل لهم اتبعوا ما أنزل الله قالوا بل نتبع ما ألفينا عليه آباءنا}الخ۔۔۔۔إنما يتم فيمن له ضرب من الاجتهاد ولو في مسألة واحدة وفيمن ظهر عليه ظهورا بينا أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بكذا ونهى عن كذا وأنه ليس بمنسوخ إما بأن يتتبع الأحاديث وأقوال المخالف والموافق في المسألة فلا يجد له نسخا أو بأن يرى جمعا غفيرا من المتبحرين في العلم يذهبون إليه ويرى المخالف له لا يحتج الا بقياس أو استنباط أو نحو ذلك فحينئذ لا سبب لمخالفة حديث النبي صلى الله عليه وسلم إلا نفاق خفي أو حمق جلي۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۷صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے