021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈراپ شپنگ کا ایک جائز متبادل
82819خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔

میں نے ڈراپ شپنگ کو حلال کرنے کے بہت سے طریقوں کے بارے میں سنا ہے۔ جس میں ایک طریقہ یہ ہے کہ صرف ایک وعدہ کریں کہ ہم اس پروڈکٹ کو آپ تک پہنچائیں گے۔ یہ نہیں کہ ہم اسے آپ کو بیچیں گے۔ جیسے اپنے پروڈکٹ پر "Buy Now" کا لیبل لگانے کے بجائے"Order Now" ڈالیں۔ کیا ڈراپ شپنگ کو حلال کرنے کے لیے اتنا کافی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آن لائن کاروبار میں وعدہ بیع کی صورت پر عمل کرنے کے لیے درج ذیل دو  حل موجود  ہیں:

۱۔      تاجر اپنی ویب سائٹ یا آن لائن اسٹور کے ڈسکرپشن   یا تعارف یا انفو وغیرہ  کے سیکشن میں یہ   اعلان لکھ دے کہ  یہاں سے  جو بھی معاملہ ہوگا وہ کنٹریکٹ آف سیل نہ ہوگا بلکہ پرامیس ٹو  سیل (وعدہ بیع) ہوگا اس طور پر کہ پہلے ہم وہ چیز کہیں سے خرید لیں گے پھر آپ کو فروخت کریں گے۔ اس اعلان کے بعد کسٹمرز کی طرف سے جو بھی آرڈر موصول ہوگا وہ اسی کی روشنی میں انجام دیا جائے گا۔

۲۔    جب بھی کوئی کسٹمر تاجر کی ویب سائٹ یا اسٹور سے کوئی چیز خریدے تو وہ Order Now  پر کلک کرے اور اس کے بعدایک تصویر یا صفحہ کھل کرسامنے  آجائے جس پر تاجر کے وعدہ بیع سے متعلق  شرائط وضوابط لکھے ہوں اوراس بات کی وضاحت ہو کہ یہ سیل آف کنٹریکٹ نہیں ہے  بلکہ پرامس ٹو سیل ہے۔مزید یہ کہ اس صفحہ کے نیچے  check box لگا کر کر اس پر ٹک کا نشان لگادے جسے کلک کیے بغیر آرڈر مکمل نہ ہوسکے اور اس پر کلک کرنے کا مطلب یہ  ہوگا  کہ آرڈر کرنے والا  ان اصول و ضوابط سے راضی ہے۔

حوالہ جات
  القرآن الكريم[الإسراء: 34]                                                                                    
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (34( :
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 311):
(20499 ) حدثنا أبو بكر قال: حدثنا هشيم، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام، قال: قلت: يا رسول الله، الرجل يأتيني ويسألني البيع ليس عندي، أبيعه منه، أبتاعه له من السوق؟ قال: فقال: «لا تبع ما ليس عندك»
المبسوط للسرخسي (13/ 8)
المنقولات لا يجوز بيعه قبل القبض عندنا...وحجتنا ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه نهى  عن بيع  ما لم  يقبض الخ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/84) :
قلت: وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس... فقد صرح علماؤنا بأنهما لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدة جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد.
مجلة مجمع الفقه الإسلامي: (ج:12,ص:652,المكتبة الشاملة):
"فقرار المجمع يقول: الوعد ملزم للواعد ديانة إلا لعذر، وهو - أي الوعد - ملزم قضاء إذا كان معلقًا على سبب ودخل الموعود في كلفة نتيجة الوعد، وأثر الإلزام يتحدد بصورتين: إما الوفاء بالوعد وتنفيذه.وإما بالتعويض عن الضرر الواقع فعلًا بسبب عدم الوفاء بالوعد بلا عذر."
فقہ البیوع، المجلد الثانی، (1103/2 ):          
الوعد او المواعدۃ بالبیع لیس بیعاً، ولا یترتب علیہ آثار البیع من نقل ملکیۃ المبیع ولا وجوب الثمن۔

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید ،کراچی

18/رجب  المرجب  /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے