83764 | جائز و ناجائزامور کا بیان | خریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل |
سوال
بینک میں نوکری کرنا کیسا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جو غیرسودی بینک مستند اور معتبر مفتیانِ کرام کے زیر نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کررہے ہیں،ان میں نوکری کرنا جائز ہے،جیسے میزان اور بینک اسلامی وغیرہ،جبکہ سودی بینک کے ایسے شعبوں میں ملازمت کرنا توبالاتفاق ناجائز ہے جن کا تعلق براہ راست سودی معاملات اور سود کی لکھت پڑھت سے ہے ،مثلا ً منیجر،کیشئیر وغیرہ،البتہ سودی بینک کے ایسے شعبوں جن کاتعلق براہ راست سودی معاملات اور سودکی لکھت پڑھت سے نہیں،مثلاً چوکیدار،چپڑاسی ،ڈرائیور اورجائز ریسرچ و غیرہ،میں ملازمت کرنے کی بعض معتبراہل افتاءنے گنجائش دی ہے،لیکن مجبوری نہ ہونے کی صورت میں اس سے بھی اجتناب ہی بہتر ہے۔ (فتاوی عثمانی:3/ 395)
حوالہ جات
"صحيح مسلم للنيسابوري " (ج 5 / ص 50) :
"عن جابر قال لعن رسول ﷲ صلىﷲ عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال:هم سواء".
"تکملة فتح الملهم "(ج1/ص388) :
"قوله: کاتبه, کتابة الربا إعانة عليه ،ومن ههنا ظهرأن التوظف فی البنوک الربویة لایجوز ،فإن کا ن عمل الموظف فی البنک ما یعین علی الربا کالکتابة أو الحساب ،فذاک حرام لوجهين: الأول :إعانة علی المعصیة ,والثانی: أخذالاجرة من مال الحرام ،فإن معظم دخل البنوک حرام مستجا ب بالربا وأما إذا کان العمل لا علاقة له بالربا ،فإنه حرام لوجه الثانی ،فإذاوجد بنک،معظم دخله حلال جاز فيه التوظف للنوع الثانی من الأعمال ".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
04/ذی قعدہ1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |