85133 | حدود و تعزیرات کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
سوال یہ ہے کہ مجھ سے اور میرے بھائی سے ڈکیتی میں ایک مرتبہ پسٹل کے زور پر موبائل چھین لیا گیا ۔اگر میرے ساتھ دوباره خدا نخواستہ کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو کیا میں ان کو قتل کر سکتا ہوں ؟اور یہ کرنے سے کیا میں غازی بن سکتا ہوں ؟ اور اگر با لفرض اس دوران اپنے مال کی حفاظت کی خاطر میں مار دیا جاتا ہوں تو کیا میں شہیدکہلایاجاؤں گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
رہزن / ڈکیت کو ڈکیتی کے دوران اگرصاحبِ مال قتل کردے، تو نہ صاحب مال گناہ گار ہوگا، اور نہ ہی قصاص یا دیت لازم ہوگی، اسی طرح سے اگر کوئی تیسرا شخص صاحب مال کی امداد کی خاطر ڈاکو سے الجھ پڑے یا ڈاکو کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائے، یا قتل کرڈالے تو شرعاًوہ گناہ گار نہ ہوگا، اور نہ ہی قصاص یا دیت لازم ہوگی، تاہم شرط یہ ہے کہ ڈکیت کے قتل کے سوامظلوم کی حفاظت کی کوئی صورت باقی نہ بچی ہو۔اور یہ معلوم اس طور پر ہوگا کہ اگر ڈاکو کےپاس کوئی ہتھیار موجودہو اور اس بات کا بھی ڈر ہو کہ وہ جس سے مال چھین رہا ہےاگر اس نے اس کو مال نہیں دیا تو اس کوقتل کرلے گا تو اس وقت ڈاکو کوقتل کرنا جائز ہے، باقی اس صورت میں اگر اورلوگ موجودہوں تو ان کے قول کا بھی اعتبار ہوگا،کہ ڈاکو کس پوزیشن میں تھا ،اگراور لوگ موجود نہ ہوںتو اس صورتمیںجس سے مال چھینرہاہے اس کے قول کا اعتبار ہوگا۔ باقیواردات کی جگہ کو بھی دیکھا جائے گاکہ اگر ڈاکو بھاگ رہا تھا اور اس نے اسکے با وجود اس کو قتل کر دیا تو اس صورتمیں اس پر دیت لازم ہو گی۔ اور اس کی پچھلی زندگی کو بھی دیکھا جائے گا کہ اس سے پہلے اس نے اسلحہ کی زور پر ڈکیتی کرنے کوشش کی ہے کہ نہیں ۔
اپنی املاک کی حفاظت کی خاطر اگر کوئی شخص قتل کردیا گیا تو ایسا شخص ا ز روئے حدیث شہید شمار ہوگا۔
حوالہ جات
صحيح مسلم (1/ 124):
حدثني أبو كريب محمد بن العلاء، حدثنا خالد يعني ابن مخلد، حدثنا محمد بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، أرأيت إن جاء رجل يريد أخذ مالي؟ قال: «فلا تعطه مالك» قال: أرأيت إن قاتلني؟ قال: «قاتله» قال: أرأيت إن قتلني؟ قال: «فأنت شهيد»، قال: أرأيت إن قتلته؟ قال: «هو في النار»
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 113):
(باب قطع الطريق) وهو السرقة الكبرى (من قصده) ولو في المصر ليلا به يفتى (وهو معصوم على) شخص (معصوم) ولو ذميا، فلو على المستأمنين فلا حد (فأخذ قبل أخذ شيء وقتل) نفس (حبس) وهو المراد بالنفي في الآية: وظاهر أن المراد توزيع الأجزية على الأحوال كما تقرر في الأصول (بعد التعزير) لمباشرة منكر التخويف (حتى يتوب) لا بالقول بل بظهور سيما الصلحاء (أو يموت)
(وإن أخذ مالا معصوما) بأن يكون لمسلم أو ذمي كما مر (وأصاب منه كلا نصاب قطع يده ورجله من خلاف إن كان صحيح الأطراف) لئلا يفوت نفعه وهذه حالة ثانية.
(وإن قتل) معصوما (ولم يأخذ) مالا (قتل) وهذه حالة ثالثة (حدا) لا قصاصا (ف) لذا (لا يعفوه ولي، ولا يشترط أن يكون) القتل (موجبا للقصاص) لوجوبه جزاء لمحاربته لله تعالى بمخالفة أمره
وبهذا الحل يستغنى عن تقدير مضاف كما لا يخفى.
(و) الحالة الرابعة (إن قتل وأخذ) المال خير الإمام بين ستة أحوال: إن شاء (قطع) من خلاف (ثم قتل أو) قطع ثم (صلب) أو فعل الثلاثة (أو قتل) وصلب أو قتل فقط (وصلب فقط) كذا فصله الزيلعي ويصلب (حيا) في الأصح وكيفيته في الجوهرة (ويبعج) بطنه (برمح) تشهيرا له ويخضخضه به (حتى يموت ويترك ثلاثة أيام من موته) ، ثم يخلى بينه وبين أهله ليدفنوه و (لا أكثر منها) على الظاهر وعن الثاني يترك حتى يتقطع (وبعد إقامة الحد عليه لا يضمن ما فعل) من أخذ مال وقتنل وجرح زيلعي (وتجري الأحكام) المذكورة (على الكل بمباشرة بعضهم) الأخذ والقتل والإخافة (وحجر وعصا لهم كسيف) .
(و) الحالة الخامسة: (إن انضم إلى الجرح أخذ قطع) من خلاف (وهدر جرحه) لعدم اجتماع قطع وضمان(وإن جرح فقط) أي لم يقتل ولم يأخذ نصابا. قال الزيلعي: ولو كان مع هذا الأخذ قتل فلا حد أيضا؛ لأن المقصود هنا المال وهي من الغرائب (أو قتل عمدا) وأخذ المال (فتاب) قبل مسكه، ومن تمام توبته رد المال ولو لم يرده قيل لا حد (أو كان منهم غير مكلف) أو أخرس (أو) كان (ذو رحم محرم من) أحد (المارة) أو شريك مفاوض(أو قطع بعض المارة على بعض أو قطع) شخص (الطريق ليلا أو نهارا في مصر أو بين مصرين) وعن الثاني إن قصده ليلا مطلقا أو نهارا بسلاح فهو قاطع، وعليه الفتوى بحر ودرر وأقره المصنف (فلا حد) جواب للمسائل الست۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 117):
(ويجوز أن يقاتل دون ماله وإن لم يبلغ نصابا ويقتل من يقاتله عليه) لإطلاق الحديث «من قتل دون ماله فهو شهيد»
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 117):
وفي البزازية وغيرها: رجل قتله رب الدار، فإن برهن أنه كابره فدمه هدر، وإلا فإن لم يكن المقتول معروفا بالسرقة والشر قتل به قصاصا، وإن كان منهما تجب الدية في ماله استحسانا؛ لأن دلالة الحال أورثت شبهة في القصاص لا في المال.
عطاء الر حمٰن
دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی
22/ربیع الثانی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عطاء الرحمن بن یوسف خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |