03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر اللہ سےمددمانگنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم
85156ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

اگر قریب میں بریلویوں کی مسجد ہو اور امام غیر اللہ سے استمداد کا قائل ہو یعنی کہ حقیقت میں  دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اولیاء کو عطاکرتاہے اور پھر ولی  تقسیم کرتے ہیں ،تو کیاایسے امام کے پیچھے نماز ہوگی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

استمداد یا استعانت بالغیر کے بارے میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تفسیر معارف القرآن میں بہت تفصیل کے ساتھ لکھاہے ،پہلے اسی کو نقل کیا جاتاہے پھر اسی کی روشنی میں جواب دیا جائے گا ۔

دربار ہ ٔاستعانت بغیر اللہ۔

 (سوال) :اس آیت (سورۃ الفاتحہ ،آیت نمبر 4)سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سوائے خدا کے کسی سے مدد نہ مانگی جائے،حالانکہ قرآن و حدیث میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرو،بیمار ہو تو علاج کرو، آخر یہ طبیب اور دوا سے استعانت اور استمداد نہیں تو اور کیا ہے ،لہذا یہ بتلایا جائے کہ وہ کون سی استعانت ہے جو غیر اللہ سے جائز ہے اور

کون سی کفر اور شرک ہے؟

جواب : جاننا چاہیے کہ غیر اللہ سے مطلقاً استعانت حرام نہیں ،استعانت بغیر اللہ بعض صورتوں میں

کفر اور شرک ہے اور بعض صورتوں میں جائز ہے۔

ضابطہ: اس کا یہ ہے کہ اگر سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو فاعل مستقل اور قادر بالذات سمجھ کر یا بعد عطاء الٰہی اور تفویض خداوندی اس کو قادر مختار جان کر اس سے مدد مانگے ،تو بلا شبہ کفر اور شرک ہے یا اس شیئ کو تاثیر اور فاعلیت میں مستقل بالذات یا مستقل بالعرض تو نہیں سمجھتا  اور معاملہ اس کے ساتھ مستقل بالذات کا سا نہیں کرتا ،لیکن دوسروں کو اس کے استقلال کا تو ہم ہوتا ہے ،تو یہ استعانت بالغیر ناجائز اور حرام ہوگی اور بعض صورتوں میں کفر اور شرک کا اندیشہ

ہے۔ جیسا  کہ آئندہ تفصیل سے معلوم ہوگا۔

          پہلی صورت:کہ غیر اللہ کو فاعل مستقل اور قادربالذات سمجھے اس کے شرک  ہونے میں تو کسی کو بھی کلام نہیں۔

دوسری صورت : کہ غیر کو قادر بالذات تو نہیں سمجھتا لیکن قادر بعطائے الٰہی سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قدرت اور اختیار عطاء کیا ہے کہ جو امور طاقت بشری سے باہر ہیں، ان میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے، جیسے بادشاہ اپنے وزاء اور حکام کو کچھ اختیارات عطاء کردیتا ہے اور وہ بعد عطائے اختیارات مستقل سمجھے جاتے ہیں اور پھر بادشاہ کے علم اور ارادہ کو دخل نہیں ہوتا، اسی طرح ۔معاذ اللہ ۔خدا تعالیٰ نے بھی کچھ اختیارات انبیاء اور اولیاء کو عطاء کیے ہیں اور وہ بعد عطاء الٰہی مستقل اور مختار ہیں۔ مشرکین عرب ملائکہ اور اصنام کے متعلق بعینہ یہی عقیدہ رکھتے تھے"ما نعبدھم الا لیقربونا الى الله زلفى"مشرکین ان کو مستقل بالذات نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کو فاعل مستقل بعطاء الٰہی سمجھتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ خدا ہی کا دیا ہے ،قرآن کریم میں جا بجا اسی عقیدہ کو باطل کیا گیاکما قال تعالی:  و یعبدون من دون الله ما لایضرھم و لاینفعھم ، و قال تعالیٰ:ان الذین تعبدون من دون الله لایملکون لکم رزقا فابتغوا عندالله الرزق واعبدوہ۔  یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ خدائی اورخدائی اختیارات کا کسی طرف منتقل ہونا یا عطاء کیا جانا نہ اختیاراً ممکن ہے اور نہ اضطراراً ،کفار بغیر عطاء الٰہی کسی چیز پر ان کو قادر نہیں سمجھتے تھے۔"و قال تعالیٰقل انی لا املك لکم ضراً و لا رشداًو قال تعالیٰقل لا املك لنفسی نفعا ولا ضراً الا ماشاء الله"۔ ان آیات میں بالذات نفع اور ضرر کے مالکیت اور اختیار کی نفی نہیں، اس لیے کہ نہ کوئی نفع اور ضرر کے بالذات مالک اور مختار ہونے کا مدعی تھا اور نہ کوئی عاقل اس کو تسلیم کرسکتا ہے ،کہ سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نفع اور ضرر کا بالذات مالک ہو، مشرکین بھی اس کے قائل تھے، اصل   مالک اور خالق وہی اللہ ہے۔

تیسری صورت:کہ جب اس غیر کو نہ مستقل بالذات سمجھے نہ مستقل بالعرض ،لیکن معاملہ اس کے ساتھ مستقل بالذات کا سا کرے۔ مثلاً اس کو یا اس کی قبر کو سجدہ کرے یا اس کے نام کی نذر مانے تو یہ بھی حرام اور شرک ہے لیکن یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ عملی ہے،اس کا مرتکب حرام کا مرتکب سمجھا  جائے گا، دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوگا۔

چوتھی صورت :کہ جب استعانت بالغیر میں اس غیر کے استقلال کا ایہام ہوتا ہو، جیسے روحانیات سے مدد مانگنا، اگرچہ یہ شخص مستقل نہ سمجھتا ہو لیکن مشرکین چونکہ ارواح کو فاعل مستقل سمجھ کر مدد مانگتے ہیں اس لیے ارواح سے مدد مانگنا قطعا حرام ہوگا، حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ،تردد اس میں ہے کہ اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے یا نہیں ،یہ فعل  چونکہ شرک کا مظہر اتم ہے اس لیے دارئرہ اسلام سے خارج ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اول کی د و صورتیں قطعاً کفر اور شرک ہیں، اور ان کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اخیر کی دو صورتیں قطعا حرام ہیں۔ تردد اس میں ہے کہ ایسے شخص کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج مانا جائے یا نہیں؟ لیکن اگر ایسی شئی سے مدد مانگے کہ جس سے مدد مانگنا کفار اور مشرکین کے شعائر سے ہو ،تو ایسی صورت میں اگر کوئی فقیہ اور مفتی   زنار باندھنے والے کی طرح اس پر بھی ظاہر کے اعتبار سے کفر اور شرک کا فتوی دے اور کافر ہونے کا حکم لگائے تو کچھ مضائقہ نہیں، چونکہ وہ شئ شعار کفر اور شرک سے ہے اس لیے اس کی نیت کا اعتبار نہ کیا  جائے گا۔

البتہ امور عادیہ جو طاقت بشریہ کے تحت داخل ہوں اور کارخانہ عالم اسباب ان کے ساتھ مربوط اور متعلق ہو اور کسی شخص کو ان کے فاعل مستقل ہونے کا تو ہم بھی نہ ہوتا ہو، جیسے روٹی کی امداد سے بھوک دفع کرنا اور پانی کی امداد سے پیاس دفع کرنا ،تو یہ استعانت بالغیر جائز ہے بشرطیکہ اعتماد محض اللہ پر ہو اور غیر کو محض ایک ذریعہ اور وسیلہ اور عون الٰہی کا ایک مظہر سمجھے، جیسے نل محض پانی کے آنے کا راستہ ہے، اسی طرح اسباب فیض خداوندی کے راستے ہیں، اصل دینے والا وہی ہے اور مشرک یہ سمجھتا ہے کہ یہ نل ہی مجھ کو پانی دے رہا ہے، اس لیے نل ہی سے پانی مانگتا ہے اور نل ہی کی خوشامد کرتا ہے،مثلاً جو شخص دوا کو محض ایک وسیلہ سمجھے اور طبیب کو محض معالج جانے تو کچھ مضائقہ نہیں ،لیکن اگر دوا کو مستقل مؤثر سمجھے اور طبیب کو صحت بخشنے والا جانے تو یہ شرک ہوگا ،جاننا چاہیے کہ اسباب شرعیہ کا بھی وہی حکم ہے کہ جو اسباب عادیہ کا حکم ہے ،صرف فرق اتنا ہے کہ اسباب عادیہ کا اسباب ہونا عادت سے معلوم ہوا اور اسباب شرعیہ کا سبب ہونا شریعت سے معلوم ہوتا ہے، پس جس طرح اسباب عادیہ سے استعانت اور استمداد جائز ہے اسی طرح اسباب شرعیہ مثل دعا اور رقیہ صبر اور نماز وغیرہ سے بھی استعانت جائز ہے اس لیے کہ ان امور کا اسباب ہونا شریعت سے معلوم ہےاور امور غیر عادیہ میں اگرچہ غیر کو مظہر عون الٰہی سمجھے اور اصل اعتماد بھی اللہ ہی پر ہو مگر چونکہ امور غیر عادیہ کا تسبب نہ عادۃ ً ثابت ہے نہ من جانب اللہ اور بالفرض اگر ثابت بھی ہو تو قطعی اور دائمی نہیں ،اس لئے امور غیر عادیہ میں استعانت بغیر اللہ کفر اور شرک تو نہ ہوگی۔ مگر بدعت وضلالت ضرور ہوگی۔سورة الفاتحه، آيت:4۔

ان تفصیلات کے بعد صورتِ مسولہ میں اگر امام کا عقیدہ دوسری صورت جیساہے کہ اللہ تعالیٰ  اپنے اولیاء کو ایسے امور کا اختیاردیتے ہیں جو طاقت بشری سے ماوراء ہو اور وہ ان اختیارات میں آزاد ہیں کہ جس کو چاہے دے دیتےہیں  اور جس کو چاہے منع کریں  ، تواس طرح کا عقیدہ رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے  یا اس  کا عقید ہ اولیاءاللہ کے متعلق یہ ہو کہ اولیا ء اللہ نہ مستقل بالذات ہیں اور نہ مستقل بالعرض ،مگر اس کے ساتھ معاملہ مستقل بالذات جیسے کرتاہے،مثلاً ان کو  یا ان کے قبروں کو سجدہ  کرتا ہو یا ان کے نام کی نذر مانتاہو،یہ بھی حرام اور شرک ہے ،ان دونوں صورتوں میں اس جیسے  عقائد رکھنے والے  امام کے پیچھے نماز پڑھنا  ناجائز ہے ۔

حوالہ جات

تفسير الألوسي = روح المعاني (3/ 297):

وعن أبي يزيد البسطامي قدس سره أنه قال: استغاثة المخلوق بالمخلوق كاستغاثة المسجون بالمسجون، ومن كلام السجاد رضي الله تعالى عنه أن طلب المحتاج من المحتاج سفه في رأيه وضلة في عقله، ومن دعاء موسى عليه السلام- وبك المستغاث-

وقال صلّى الله عليه وسلّم لابن عباس رضي الله تعالى عنهما: «إذا استعنت فاستعن بالله تعالى، الخبر،

وقال تعالى: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ [الفاتحة: 5] .

وبعد هذا كله أنا لا أرى بأسا في التوسل إلى الله تعالى بجاه النبي صلّى الله عليه وسلّم عند الله تعالى حيا وميتا، ويراد من الجاه معنى يرجع إلى صفة من صفاته تعالى...

الثاني أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد . ومن وقف على سر ما رواه الطبراني في معجمه من أنه كان في زمن النبي صلّى الله عليه وسلّم منافق يؤذي المؤمنين فقال الصديق رضي الله تعالى عنه: قوموا بنا نستغيث برسول الله صلّى الله عليه وسلّم من هذا المنافق فجاؤوا إليه، فقال: إنه لا يستغاث بي إنما يستغاث بالله تعالى» لم يشك في أن الاستغاثة بأصحاب القبور- الذين هم بين سعيد شغله نعيمه وتقلبه في الجنان عن الالتفات إلى ما في هذا العالم، وبين شقي ألهاه عذابه وحبسه في النيران عن إجابة مناديه والإصاخة إلى أهل ناديه- أمر يجب اجتنابه ولا يليق بأرباب العقول ارتكابه، ولا يغرنك أن المستغيث بمخلوق قد تقضى حاجته وتنجح طلبته فإن ذلك ابتلاء وفتنة منه عز وجل، وقد يتمثل الشيطان للمستغيث في صورة الذي استغاث به فيظن أن ذلك كرامة لمن استغاث به، هيهات هيهات إنما هو شيطان أضله وأغواه وزين له هواه، وذلك كما يتكلم الشيطان في الأصنام ليضل عبدتها الطغام، وبعض الجهلة يقول: إن ذلك من تطور روح المستغاث به، أو من ظهور ملك بصورته كرامة له ولقد ساء ما يحكمون، لأن التطور والظهور وإن كانا ممكنين لكن لا في مثل هذه الصورة وعند ارتكاب هذه الجريرة، نسأل الله تعالى بأسمائه أن يعصمنا من ذلك، ونتوسل بلطفه أن يسلك بنا وبكم أحسن المسالك وَجاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ مع أعدائكم بما أمكنكم.

ا لموسوعة الفقهية الكويتية (4/ 17):

استعانة:

التعريف: الاستعانة مصدر استعان، وهي: طلب العون، يقال: استعنته واستعنت به فأعانني

والمعنى الاصطلاحي لا يخرج عن المعنى اللغوي.

الحكم الإجمالي:

 تنقسم الاستعانة إلى استعانة بالله، واستعانة بغيره.

فالاستعانة بالله سبحانه وتعالى مطلوبة في كل شيء: مادي مثل قضاء الحاجات، كالتوسع في الرزق، ومعنوي مثل تفريج الكروب، مصداقا لقوله تعالى: {إياك نعبد وإياك نستعين}  . وقوله تعالى: {قال موسى لقومه استعينوا بالله واصبروا}.

وتكون الاستعانة بالتوجه إلى الله تعالى بالدعاء، كما تكون بالتوجه إليه تعالى بفعل الطاعات، لقوله تعالى: {واستعينوا بالصبر والصلاة} .

 أما الاستعانة بغير الله، فإما أن تكون بالإنس أو بالجن.

فإن كانت الاستعانة بالجن فهي ممنوعة، وقد تكون شركا وكفرا، لقوله تعالى: {وأنه كان رجال من الإنس يعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا} .

 وأما الاستعانة بالإنس فقد اتفق الفقهاء على أنها جائزة فيما يقدر عليه من خير، لقوله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} .

وقد يعتريها الوجوب عند الاضطرار، كما لو وقع في تهلكة وتعينت الاستعانة طريقا للنجاة، لقوله تعالى: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة}.

عبدالعلی

دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی

23/ ربیع الثانی /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالعلی بن عبدالمتین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب