85142 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
میں نے بیوی سے جھگڑے کے دوران غصے کی حالت میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کئے جو طلاق کا شبہ پیدا کرتے ہیں، جب کہ میرے ذہن میں بیوی کو ایسا بول کر صرف اسے خوف زدہ کرنا تھا،میں نے جھگڑتے وقت بیوی سے کہا کہ تم مجھے ہاتھ نہ لگاؤ، میں تمھیں فارغ کر رہا ہوں، تمھارا میرا تعلق نہیں ہے، فنش (finish)ٹاٹا بائے بائے(ta ta bye bye)، تم بچوں کو بھی لے جاؤ اگر لے جانا ہے اور میں خود تم کو تمہارے گھر چھو ڑ کر آتا ہوں، اس موقع پر میری بیوی نے قرآن پاک کاواسطہ دیتے ہوئے کہا کہ تم بچوں کی خاطر مجھے نہیں چھوڑو ،میں نے احترام کرتے ہوئے زبان بند کر دی اور ایک دن تک میرا غصہ ختم ہوا ،تو ہم نارمل برتاؤ کرنے لگے، اب مجھے میڈیا کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہےاور طلاق بائن کی صورت میں نکاح دوبارہ پڑھنا پڑتا ہے، میری رہنمائی فرمائیں ،میں پریشاں ہوں کیوں کہ اس دوران ہم ازدواجی تعلق قائم کرتے رہتے تھے اور چار ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔
تنقیح:سائل نے فون کال پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میری طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی ،میں صرف اس کو ڈرانے دھمکانے کی غرض سے یہ کہہ رہاتھا اور نیت یہ تھی کہ اسے گھر چھوڑنے کے بعد خاندان کے بڑوں کے سامنے یہ بات رکھوں گا کہ بیوی کا میرے ساتھ اس طرح کارویہ ہے وغیرہ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسولہ میں شخصِ مذکور نے جھگڑے کی حالت میں جب اپنی بیوی سے کہا کہ " میں تمھیں فارغ کر رہا ہوں، تمھارا میرا تعلق نہیں ہے " تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے اور ان الفاظ سے طلاق کے وقوع کے لیے نیت کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہمارے عرف میں یہ الفاظ کنایاتِ طلاق کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جن سے قرینہ (دلالت حال / غصہ یا مذاکرہ ٔطلاق)کے پائے جانے کے وقت بلانیت بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، کذا فی احسن الفتاوی (5/188) ،لہذا دونوں کے مابین نکاح ختم ہوگیا ہے۔بقیہ جملوں سے طلاق کی نیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
لہذا اب اگر دونوں اپنی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو عدت کے اندر یا عدت کے بعد گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ آپس میں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کا صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا، اس لیے آئندہ طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 217):
والكنايات ثلاثة أقسام قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح ردا ولا شتما وهي ثلاثة ألفاظ أمرك بيدك اختاري واعتدي ومرادفها وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح ردا وهي خمسة ألفاظ خلية برية بتة بائن حرام ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا وشتيمة وهي خمسة ألفاظ اخرجي واذهبي اغربي قومي تقنعي ومرادفها ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية للاحتمال والقول قوله مع يمينه في عدم النية وفي حال مذاكرةالطلاق وهي أن تسأله المرأة طلاقها أو يسأله أجنبي يقع في القضاء بكل لفظ لا يصلح للرد وهي القسم الأول والثاني ولا يصدق قوله في عدم النية؛ لأن الظاهر أنه أراد به الجواب؛ لأن القسمين لا يصلحان للرد والقسم الثالث وإن كان يصلح للشتم لكن الظاهر يخالفه؛ لأن السب غير مناسب في هذه الحالة فتعين الجواب.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 405):
(ولا) يصدق قضاء في إنكاره أيضا (عند الغضب فيما يصلح للطلاق دون الرد والشتم) فيقع بما يصلح له دونهما الحاصل أن أحوال التكلم ثلاثة: حالة الرضاء وحالة الغضب وحالة مذاكرة الطلاق، والكنايات ثلاثة أقسام ما يصلح ردا جوابا ولا يصلح ردا ولا شتما وهو اعتدي وأمرك بيدك واختاري ...وما يصلح جوابا وشتما ولا يصلح ردا وهو خلية برية بتة بائن حرام ومرادفها من أي لغة كان وما يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا وشتيمة وهو اخرجي اذهبي قومي اغربي تقنعي ومرادفها من أي لغة كان ولم يذكر حكم ما يصلح جوابا وردا.
وفي الهداية ويصدق؛ لأنه احتمل الرد وهو الأدنى فحمل عليه (ويصدق ديانة في الكل) أي كل الكنايات مع اختلاف الحالات؛ لأن الله تعالى مطلع على النيات.
بدائع الصنائع (3/ 102)::
" قال إن قوله خليت في حال الغضب وفي حال مذاكرة الطلاق يكون طلاقا حتى لا يدين في قوله إنه ما أراد به الطلاق."
عبدالعلی
دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی
23/ ربیع الثانی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعلی بن عبدالمتین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |