021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدت گذرنے کے بعد طلاق دینے کاحکم
78512طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

عرض یہ ہے کہ   ایک  شخص نے اپنی بیوی   کو اس  کی نافرمانی کی وجہ سے   دو طلاقیں دی ہیں ،اور  جدا  کرکے  لڑکی  کے والدین   کے گھر بھیج  دیا ہے  ، تقریبا   ڈھائی   تین سال سے ایک دوسرے سے  الگ   رہ رہے ہیں ۔اس   کے بعد  وہ شخص   عدالت جاکر  ایک اور طلاق   لکھوا کر بیوی کے پاس  بھیجد یتا    ہے ۔ اب لوگوں  نے پوچھا اگر کچھ   گنجائش  باقی  ہوتومیاں  بیوی  میں صلح کروادیتے  ہیں ،اس شخص نے  کہا  کہ کوئی گنجائش با قی نہیں ،بلکہ عرضی   نویس   سے  جو  اسٹا  مپ    پیپر بنوا  یا ہے اس میں بیوی  کو  جہیز کا سامان  واپس کرنے کی  صراحت  کردی ہے ، اور   بچوں کا نان نفقہ بھی اپنے ذمہ لیا ہے ۔

اب  لوگوں نے کسی مفتی صاحب کو بلایا ،اوران کے سامنے غلط بیانی  کی  کہ اس  نے طلاق نہیں دی ،محض  ڈرایاتھا  تاکہ وہ   نافرمانی سے باز آجائے ۔ تو مفتی صاحب  نے ان کا نکاح   دوبارہ  پڑھا  دیا ۔کچھ گواہیاں   بھی منسلک ہیں  ان کو سامنے رکھتے  ہوئے مسئلہ کی وضاحت فرمادیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہو کہ مفتی کو غیب کا علم نہیں  ہوتا ،بلکہ سوال  میں لکھی ہوئی  تحریر کے  مطابق  ہی  جواب  لکھا جاتا ہے،باقی  سوال میں  صحیح  بات لکھنے  کی تمام تر ذمے داری  سائل پر عائد ہوتی ہے ، لہذا اگر کوئی شخص  تین طلاق دینے سے بیوی کے حرام  ہونے کے بعد غلط بیانی کے ذریعہ کسی دارالا فتاء   سےطلاق واقع نہ ہونے کا فتوی حاصل کرے ،اور پھراس طرح  تین طلاق یافتہ عورت کو بیوی بناکر گھر میں بسائے او ر  دونوں میاں  بیوی  کی حیثیت  سے زندگی  گذار ے ،تو  شرعا یہ  حرام کاری  ،زنا کاری،  بدکاری کے  حکم میں داخل  ہے ،لہذا اگر  میاں  بیوی میں  جھگڑے  کے دوران  طلاق کے الفاظ  استعمال ہوئے  ہوں ، تو پوری  دیانتداری  کے ساتھ واقعہ  بیان   کرکے مسئلہ  کا حکم معلوم  کرکے عمل کرنا  لازم  ہے  ۔

اس وضاحت  کے بعدمسئولہ  صورت  کا حکم یہ ہے کہ  سوال کی تحریر  کے مطابق یہ شخص  اپنی بیوی  کو ڈھا ئی تین سال  قبل دوطلاقیں  دے چکاتھا، اگر  واقعی  وہ  دو طلاقین  دے چکا ہے   جیسا کہ  منسلکہ  طلاق نامے میں مذکورہے  ، تو  اب  شوہر کے لئے ان  دونوں طلاقوں   کا  انکار  جائز نہیں بڑا سخت  گناہ ہے۔پھر انہوں  نے  عدت کے دوران رجوع بھی نہیں کیاتھا  اس لئے عدت  گذرتے ہی دونوں کا  نکاح  ختم ہوگیا ۔پھر  عدت  گذرنے  کے بعد  جو اس نے تیسری  طلاق   دی  ہے شرعا  وہ طلاق  واقع نہیں ہوئی ، دوطلاق  واقع  ہونے کی صورت میں دونوں میاں  بیوی   کے لئے آپس  کی  رضامندی سے   نئے  مہر  کےساتھ  دوبارہ  نکاح کرنا  جائزتھا ،لہذا  جب   انہوں  نے نکاح  کرلیا  تو  نکاح  دوبارہ  منعقد ہوگیا ، اب دونوں کے لئے  میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گذارنا جائز ہے۔  البتہ  آیندہ  شوہر  کوصرف ایک طلاق  کا  اختیار  ہے،لہذا سخت احتیاط  کی  ضرورت  ہے چنانچہ کسی بھی   وقت مزید  ایک طلاق   دینے کی صورت  میں  بیوی  مکمل حرام  ہوجائے  گی، توپھر حلالہ  شرعیہ  کے بغیر  دوبارہ  نکاح نہیں  ہوسکے گا ۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (10/ 196)
اذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز

 احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

 دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۸ جمادی  الاولی  ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب