ہم دو بھائی کاروبار میں شریک ہیں ،قرض لے کر کاروبار شروع کیا تھا،اللہ تعالی نے برکت عطافرمائی ،دونوں صاحب نصا ب ہوگئے ،ہر سال ۲۳ ربیع الثانی کو پورے کاروبار کا مکمل حساب کرکے نیز اپنے پاس موجود رقم کا حساب لگاکر زکاۃ کی ادائیگی کرتے تھے،ہر بھائی اپنے حصے کی زکاۃ اپنی رقم سے ادا کرتا تھا، تقریبا تین سال پہلے چھوٹے بھا ئی عبدالرحیم نے مکا ن خریدا ،مکان خریدنے کے لیے رقم موجود نہیں تھی ،قرض لے کر مکان خریدا ،۲۳ربیع الثانی کی تاریخ آنے پر حساب کیا تو عبدالرحیم مقروض تھا ،اس پر زکاۃ فرض نہیںہوئی،احقرپرزکاۃفرض ہوئی،احقرنےاپنی رقم سے اپنی زکاۃ ادا کردی،دوسرے سال بھی ۲۳ربیع الثانی کو حساب لگایا ،عبدالرحیم کا کچھ قرض اگر چہ ادا ہوگیا تھا ،تاہم اب بھی وہ مقروض تھا ،لہذا اس پر زکاۃ فرض نہیں ہوئی ،احقر نے اپنی زکاۃ اپنی رقم سے ادا کردی،تیسرے سال ۲۳ ربیع الثانی ۱۴۳۵ھ کو حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ عبدالرحیم کی رقم نصاب سے زائد ہوچکی ہےاور اندازہ کے مطابق تقریبا تین ماہ پہلے یعنی محرم الحرام ۱۴۳۵ھ کے آخری عشرہ میں زکاۃ کا نصاب بن گیا تھا ،تحقیق طلب امور حسب ذیل ہیں :
۱۔دونوں بھائی اپنی زکاۃ کی تاریخ ۲۳ ربیع الثانی رکھنا چاہتےہیں ،کیونکہ ایک تاریخ میں پورے کاروبار کا حساب لگانے میں سہولت ہے ،یہ سہولت سال میں حساب ایک مرتبہ ہونے کے اعتبار سے ہے ،پورے کاروبار کا حساب لگانے میں ایک دن سے زائد وقت صرف ہوتا ہے،پھر حساب رجسٹروں کی مدد سے نہیں ،بلکہ خام مال ،تیار مال جو کافی اقسام پر مشتمل ہوتاہے ،ان کا وزن کرنا ،پھر قیمت لگانا ،پھر بازار کے لین دین کا حساب کرنا اس میں کافی وقت صرف ہوجاتا ہے،زکاۃ کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جاتی ہے ،دماغ پر زکاۃکی نہیں،بلکہ حساب کی ٹینشن شروع ہوجاتی ہے ،اس لیے چاہتےہیں کہ دونوں بھائیوں کی زکاۃ کی تاریخ ایک ہی رہے ،اس میں شرعا کوئی قباحت تو نہیں ہے؟
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال:جب ہر بھائی کو اپنے صاحب نصاب ہونے کی تاریخ کا علم ہے تو بہتر تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنی مقررہ تاریخ پر ہی حساب کرکے زکاۃ نکالے ،لیکن اگر ایسا کرنے میں حرج ہوجیساکہ سوال میں مذکور ہے تو پھر اس کی ممکنہ صورت یہ ہے کہ محرم کی جس تاریخ کے بارے میں یہ یقین ہو کہ عبدالرحیم اس میں صاحب نصاب بن چکا تھا اس میں دونوں بھائی اکٹھے حساب کرلیں اورعبد الرحیم کابڑابھائی اگلے تین مہینوں کی زکاۃ ایک محتاط اندازے کے مطابق پیشگی نکال لے ،یعنی محرم تک کاحساب کرنے کے بعد ربیع الثانی تک کاروبار میں ممکنہ نفع کا اندازہ لگاکر اس کی زکاۃ اداکریں،بلکہ اس ممکنہ نفع کی زکاۃ سے اتنا زیادہ ادا کریں کہ یقینی طور پر ممکنہ اضافے کی زکاۃ ادا ہوجائے،مثلا اگر اگلے تین ماہ میں پچاس ہزار کا نفع متوقع ہےتو آپ ایک لاکھ کی زکاۃ ادا کردیں،اس سے زکاۃ کی ادائیگی کا بھی یقین ہوجائے گا اور آپ بار بار کے حساب کے حرج سے بھی بچ جائیں گے۔
حوالہ جات
"الدر المختار للحصفكي " (ج 2 / ص 295):
"(وافتراضها عمري) أي على التراخي، وصححه الباقاني وغيره (وقيل: فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى)كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر (وترد شهادته)؛ لان الامر بالصرف إلى الفقير معه قرينة الفور، وهي أنه لدفع حاجته وهي معجلة، فمتى لم تجب على الفور لم يحصل المقصود من الايجاب على وجه التمام، وتمامه في الفتح".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: ( قوله: فيأثم بتأخيرها إلخ ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين؛ لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان .
وقد يقال: المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم ا هـ فتأمل.
( قوله : وهي ) أي القرينة أنه أي الأمر بالصرف ( قوله: وهي معجلة ) كذا عبارة الفتح .أي حاجة الفقير معجلة أي حاصلة.
( قوله : وتمامه في الفتح ) حيث قال بعد ما مر : فتكون الزكاة فريضة وفوريتها واجبة فيلزم بتأخيره من غير ضرورة الإثم كما صرح به الكرخي والحاكم الشهيد في المنتقى ؛ وهو عين ما ذكره الإمام أبو جعفر عن أبي حنيفة أنه يكره ، فإن كراهة التحريم هي المحمل عند إطلاق اسمها ، وقد ثبت عن أئمتنا الثلاثة وجوب فوريتها ، وما نقله ابن شجاع عنهم من أنها علي التراخي فهو بالنظر إلى دليل الافتراض أي : دليل الافتراض لا يوجبها ، وهو لا ينفي وجود دليل الإيجاب .
"الهداية"(ج 1 / ص 99) :
" وإن قدم الزكاة على الحول وهو مالك للنصاب جاز لأنه أدى بعد سبب الوجوب فيجوز".