میں نے گورنمنٹ نوکری کے لئے اپنے ڈاکومینٹس دئیے ہیں ،میرے سارے ڈاکومینٹس مکمل ہیں،لیکن پھربھی آفیسرمجھ سے گورنمنٹ نوکری کے لئے 3لاکھ روپے مانگ رہے ہیں ۔
میرے دوست مجھے بول رہے ہیں کہ آپ ان کو3 لاکھ دوگے تویہ رشوت کے زمرے میں آجائے گا،کیونکہ رشوت دینااورلینادونوں گناہ ہے، آپ مجھے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
رشوت لینااوردینادونوں حرام ہیں، قرآن وحدیث میں اس پرسخت وعیدیں آئی ہیں، حتی الامکان اس سے بچنافرض ہے ،البتہ دفع ظلم کے لئے اوراپناحق (تجارت یاملازمت وغیرہ )وصول کرنے کے لئے بحالت مجبوری اگررشوت دی جائے توامیدہے کہ رشوت دینے والاگناہگارنہیں ہوگا،ساراوبال رشوت لینے والے پرہوگا۔
تاہم ایسی صورت میں بھی رشوت دینے کاجواز مطلق نہیں ہے،بلکہ اس میں یہ تفصیل ذیل ہے:
١۔رشوت دیکر ایسی نوکری حاصل کرنا جس کی اہلیت رشوت دہندہ میں نہ ہوجائز نہیں ،خواہ وہ اس نوکری کے لئے درخواست دینے والااکیلاامیدوار ہی کیوں نہ ہو۔
۲۔امیدوار متعددہوں ،توکم اہلیت رکھنے والے امیدوار کے لئےرشوت دیکراپنے سے زیادہ اہلیت والے کسی امیدوارکو نوکری سے محروم کرانا جائزنہیں ۔
۳۔مساوی صلاحیت کے کئی امیدوارجمع ہوں اور سیٹیں کم ہونے کی وجہ سے نوکری بعض کو ملنا طے ہوتو ایسی صورت میں بھی کسی امیدوارکے لئےرشوت دیکردوسرے امیدواروں سے رشوت کی بنیاد پرآگے بڑھناجائزنہیں۔
۴۔اگرمذکورہ بالاتینوں صورتیں نہ ہوں ،مثلادرخواست دہندہ اکیلاامیدوار ہواوراس میں متعلقہ کام کی اہلیت موجودہو،یا امیدوارمتعددہوں لیکن رشوت دینے والاامیدواردوسرے امیدواروں کی بنسبت متعلقہ کام کا زیادہ اہل ہو،یاسب امیدوار صلاحیت میں مساوی ہوں ،مگرسیٹیں زیادہ ہونے کی وجہ سے کسی امیدوار کے رشوت دینے کی وجہ سے دوسرے امیدوار نوکری سے محروم نہ ہوتے ہوں ،تو ان صورتوں میں سرکاری اہل کاروں کی ٹال مٹول اور ظلم سے بچنے کے لئے بقدرضرورت رشوت دینے کی گنجائش ہے،ایسی صورت میں رشوت کا گناہ ان اہل کاروں کو ہوگا ،نوکری حاصل کرنے والے امیدوار کو نہ ہوگا۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 21 / 295 :
وفی المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد۔
" رد المحتار" 21 / 295 :
الثالث : أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط۔۔ الرابع : ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب۔
"فيض القدير للمناوی " 14 / 107:
(الراشي والمرتشي) أي آخذ الرشوة ومعطيها (في النار) قال الخطابي :إنما تلحقهم العقوبة إذا استويا في القصد فرشي المعطي لينال باطلا فلو أعطى ليتوصل به لحق أو دفع باطل فلا حرج وقال ابن القيم :الفرق بين الرشوة والهدية أن الراشي يقصد بها التوصل إلى إبطال حق أو تحقيق باطل وهو الملعون في الخبر فإن رشى لدفع ظلم اختص المرتشي وحده باللعنة ۔
"ردالمحتار"7/663:
ولواضطرالی دفع الرشوة لاحیاء حقہ جاز لہ الدفع وحرم علی القابض۔
"رد المحتار"6/423:
(وفیہ ایضا)دفع المال للسلطان الجائرلدفع الظلم عن نفسہ ومالہ لاستخراج حق لہ لیس برشوة یعنی فی حق الدافع۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب
محمّد بن حضرت استاذ صاحب
مفتیان
مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب