021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گابھن جانور کی قربانی کا حکم
60066قربانی کا بیانقربانی کے متفرق مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک بندے نے قربانی کے لیے ایک بچھیا خریدی اور خریدنے کے کچھ وقت بعد اسے پتہ چلا کہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے،اب اس کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ اگر قربانی جائز نہیں ہے تو اب ان کے لیے کیا حکم ہے،کیا اب ان کے ذمے اسی مالیت کا دوسرا جانور قربانی کے لیے لانا ہوگا،یا اس جانور کو بیچ کر دوسرا جانور قربانی کے لیے خرید سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر حمل نیا ہو اور ابھی پیٹ میں موجود بچے میں جان نہ پڑی ہو تو اس کی قربانی بلاکراہت جائز ہے،البتہ اگر اتنی مدت گزرچکی ہو کہ بچے میں جان پڑگی ہو تو پھر اس بچھیا کی قربانی مکروہ ہے،اس کے بجائے اسی کے برابر یا اس سے زیادہ قیمت والا جانور خرید کر قربانی کرلے اور اس بچھیا کے بارے میں اسے اختیار ہے، چاہے تو بیچ دے اور چاہے تو پاس رکھے۔(امدادالفتاوی:3/559)
حوالہ جات
"درر الحكام شرح غرر الأحكام" (1/ 270): "(تنبيه) يكره ذبح الشاة الحامل إذا كانت مشرفة على الولادة كما في منية المفتي". "البحر الرائق " (8/ 195): "ويكره ذبح الشاة إذا تقارب ولادتها لأنه يضيع ما في بطنها".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب