ہمارے ایک پٹھان دوست پنجاب میں رہاش پذیر ہیں اعلی تعلیم یافتہ ہیں ان کی اہلیہ غیر پختون ہے ، ان کی بچیان جوان ہیں وہ تعلیم یافتہ ہیں لیڈی ڈاکٹر ہیں ، پختون رشتے آ نہیں رہے ہیں ، اور ہمارے دوست غیر پختونوں کو رشتہ دینے کے لئے کسی حال میں تیا ر نہیں بچیوں کی عمریں بھی زیادہ ہورہی ہیں غیر برادری میں رشتہ نہ دینے کی والد کی ضد کی وجہ سے لڑکیا ں اور دیگر رشتہ دار سخت پریشان ہیں ۔براہ کرم آگاہ فرمائیں اس معاملہ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعت مطہرہ نے نکاح میں لڑکے اور لڑکی کا ہم پلہ ہونے کا لحاظ رکھا ہے تاکہ مزاج میں موا فقت ہو اور زندگی اچھی گذرے برادری میں نکاح کرنے میں عموما یہ مقصد حاصل ہوتا ہے اس لئے اپنی برادری میں نکاح کیا جائے تو یہ بہتر ہے ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی برادری میں رشتہ نہ ملے تو شادی ہی نہ کی جائے ، کیونکہ شادی میں تاخیر سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں
کبھی لڑکیا ں بغیر شادی کے بوڑھی ہوجاتی ہیں ، کبھی خدانخواستہ زنا کاری اور اس جیسی دیگر غلط کاریوں میں مبتلا ہوسکتی ہیں ،اگر شادی میں والدین رکاوٹ بنیں تو نکاح میں تاخیر کی وجہ سے جوگناہ صادر ہونگے ان کا سارا وبال رکاوٹ بننے والے والدین پر ہوگا لہذا صورت مسئو لہ میں والد کو چاہئےبرادری کی ضد نہ کرے بلکہ جہاں دیندارمناسب رشتہ مل جائے بچیوں کا وہاں نکاح کرادے اس سےانشااللہ بہتر نتائج برآمد ہونگے ،
حوالہ جات
عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تنكحوا النساء إلا الأكفاء ولا يزوجهن إلا الأولياء ولا مهر دون عشرة دراهم ۔ سنن الدارقطني (3/ 244)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کا نکاح ان کے کفء میں کرو۔ان کی شادی ان کے ولی کی موجودگی میں ہی کرواور ان کا مہر دس دراہم سے کم مقرر نہ کرو ۔
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " تنكح المرأة لأربع : لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك "مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 198)
ارشاد فرمایا کہ نکاح کے لئے لڑکی کے انتخاب کرتے وقت چار باتیں دیکھی جاتی ہیں ، ١۔ مالداری ۲۔ نسبی شرافت ۳۔ خوبصورتی ۴۔ دینداری۔ تو تم دینداری کو ترجیح دو اللہ تمہیں کامیاب کرے ۔
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إن لا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد عريض " . رواه الترمذي مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 200)
جب تمہارے پاس کوئی شخص نکاح کا پیغام بھیجے اور تمہیں اس کی دینداری اور اسکے اخلاق پر اطمینان ہے ،تو اس سے نکاح کردو ، اگر ایسا نہیں کروگے تو اس سے زمین میں فتنہ فساد پھیل سکتا ہے ۔
وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " في التوراة مكتوب : من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنة ولم يزوجها فأصابت إثما فإثم ذلك عليه " . رواهما البيهقي في " شعب الإيمان " مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 211)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ توراة میں لکھا ہوا ہے جس شخص کی لڑکی بارہ سال کی ہوجائے اور﴿جوڑ کا رشتہ ملنے کے باوجود ﴾ اس کا نکاح نہ کرے ،پھر وہ لڑکی برائی ﴿یعنی بدکاری وغیرہ ﴾ میں مبتلا ہوجائے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہے