03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آمدنی پر زکوۃ کا حکم/ایک بھائی بیرون ملک کماتارہادوسراگھر کی دیکھ بھال کرتارہایہ کمائی کس کاحق ہے ؟اس آمدنی سے خریدی گئی اشیاء کس کی ملکیت ہے؟قربانی زکوۃ کس پر لازم ہے؟
57080زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

میرا بھائی فضل (فرضی نام)دبئی میں مزدوری کرتا ہےاور میں گھر کا کام کاج کرتا ہوں۔کچھ بھائی مدرسے میں پڑھتے ہیں اور والدین بھی زندہ ہیں۔علاقے کا عرف یہ ہے کہ سعودیہ میں جو بھائی مزدوری کرتا ہےوہ جو رقم بھیجتا ہےیا گھر میں کوئی کمرہ وغیرہ بناتا ہےوہ مشترکہ شمار ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ میرے اس بھائی فضل کی ملکیت میں جو رقم ہےوہ صرف اسی کی شمار ہو کروہ صاحب نصاب ہوگا یا سب صاحب نصاب ہوکر زکوۃ نہیں لے سکتے؟اور والد کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟اورجو زمین وغیرہاپنی امدنی سے اپنے لیے خریدتا ہےوہ کس کی ہو گی؟ دبئی جاتے وقت بھائیوں میں معاہدہ ہوا ہےکہ ایک بھائی مزدوری کرے گا اور دوسرا گھر میں رہے گااور تمام آمدنی مشترک ہوگی،تو اس معاہدے کا شرعی حکم کیا ہے؟اور آمدنی کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں آپ کے بھائی فضل معبود کی ملکیت میں جو رقم ہےوہ چونکہ ان کی کمائی ہے اس لیے صرف انہیکی شمار ہو گی تو صاحبِ نصاب بھی و ہی ہونگے(1)البتہ جو رقم فضل معبود نے والد صاحب کو اس طرح دی ہےکہ والد صاحب کو اس کا مالک بنایا ہےتو صاحب نصاب ہونے کی صورت میں اس کی زکوۃ والد صاحب پر واجب ہو گی اور اگر مالک نہیں بنایا تو اس کا مدار عرف پر ہو گا،اگر عرف تملیک کا ہےتو یہ بھی اس پر محمول ہو گااور اگر عرف مشترک ہےیا ہے ہی نہیں تو والد کا تصرف ہونے کے با وجود اس کی زکوۃ اصل مالک یعنی فضل معبود پرہی ہو گی ،جو زمین وغیرہ فضل معبود اپنی آمدنی سے اپنے لیے خریدتا ہےتو چو نکہ وہ اپنی کمائی سے خریدتا ہےاس لیے وہ اُسی کی ملکیت ہو گی۔ اور یہ معاہدہ جو بھائیوں کے درمیا ن ہوا ہےصرف اس زبانی معاہدہ کی وجہ سے یہ معاملہ باقاعدہ شر کت نہیں بن سکتاکیونکہ شریعت میں کاروباری شراکت داری کے لیے کاروبار میں سب شرکاء کا مال لگانا ضروری ہے اور یہاں صرف ایک بھائی کی کمائی ہے۔ لہذا یہ کاروباری شرکت تو نہ ہوئی(2)اور شرکت ِاملا ک کے لیے کاروبار کا ہونا تو ضروری نہیں،البتہ کسی مشترک بنیا د یا خلط کا پایا جانا ضروری ہے۔جب تک کوئی مشترکہ اثاثہ بنیاد نہ ہواور نہ ہی خلط الاموال ہوتو محض عرف کی وجہ سےشرکت ملک وجود میں نہیں آتی۔لہذا صورت ِ مسئولہ میںفضل معبود کے پاس موجودہ رقم مشترک نہ ہو گی(3)۔ البتہ جو رقم وہ والد صاحب کوبھیجتا ہے اور یہ طے بھی ہوا ہےکہ اس کی بھیجی گئی رقم سے جو کمرہ وغیرہ بنے گا وہ ہم سب میں مشترک ہوگاتو یہ گویااس کی طرف سے دوسروں کے لیے ھبہ ہے۔اب اگر فضل معبودوالداور بھائیوں کے لیے الگ الگ رقم بھیجتا ہے تب تو والد صاحب بھیجی ہوئی رقم سب میں مشترک ہوگی اوراگر وہ ہر ایک کے لیےالگ کر کے نہیں بھیجتا تو یہ مشترک ھبہ ہونے کی وجہ سے تملیک تام نہ ہوگی اور یہ ساری رقم فضل معبود کی ملکیت شمار ہوگی(4)۔ ہا ں یہ ایک وعدہ ہےجس کی پاسداری اخلاقا لازم ہے بلا وجہ اس کےخلاف کر نا اللہ تعالی کو نا پسند اور اخلاقی جرم ہےلیکن قضاء اس کو پورا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا (5)۔نیزاس معاملے کےتحت باقی بھائیوں نے فضل معبود کی عدم موجودگی میں اس سے متعلق جو کام اور ذمہ داریاں انجام دی ہوں تو ان بھائیوں کو یہ حق حاصل ہےکہ ٖفضل معبود سے اپنی اس محنت کی اجرت مثل کا مطالبہ کریں۔اجرت مثل کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے کام انجام دینے کے لیےرکھے ہوئے ملازمین کوجو عام اجرت دی جاتی ہواتنی مقدار فضل معبود اپنی کمائی میں سے بھائیوں کو ادا کرے۔
حوالہ جات
1.الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول ولا بد من ملك مقدار النصاب لأنه صلى الله عليه وسلم قدر السبب به. (الهداية :1/ 95) (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول ؛لحولانه عليه (تام).(قوله ملك نصاب) فلا زكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة ؛لعدم الملك.قد ذكر في البدائع من الشروط الملك المطلق. قال: وهو الملك يدا ورقبة (رد المحتار):2/ 259) (وشرط وجوبها العقل والبلوغ والإسلام والحرية، وملك نصاب حولي فارغ عن الدين وحاجته الأصلية نام، ولو تقديرا) أي شرط لزوم الزكاة علما، وعملا، وأراد بالوجوب الفرضية؛ لأنها ثبتت بدليل مقطوع به، وهو الكتاب والسنة، وإجماع الأمة . (تبيين الحقائق :/ 252) 2۔الشركة بالأموال: فهو أن يشترك اثنان في رأس مال، فيقولان اشتركنا فيه، على أن نشتري ونبيع معا، أو شتى، أو أطلقا على أن ما رزق الله عز وجل من ربح، فهو بيننا على شرط كذا، أو يقول أحدهما: ذلك، ويقول الآخر: نعم. (بدائع الصنائع :6/ 56) (وشركة العقد أن يقول أحدهما شاركتك في كذا ويقبل الآخر) لأنه عقد من العقود فلا بد من الإتيان بركنه وهو الإيجاب والقبول بأن يقول شاركتك في بز أو نحوه أو في عموم التجارات وشرطه أن يكون التصرف المعقود عليه عقد الشركة مما يقبل الوكالة . (تبيين الحقائق :3/ 313) شركة المفاوضة: فهي أن يشترك الرجلان فيتساويان في مالهما وتصرفهما ودينهم؛ لأنها شركة عامة في جميع التجارات ،يفوض كل واحد منهما أمر الشركة إلى صاحبه على الإطلاق؛إذ هي من المساواة، ولا تنعقد إلا بلفظة المفاوضة؛ لبعد شرائطها عن علم العوام، حتى لو بينا جميع ما تقتضيه تجوز لأن المعتبر هو المعنى. (الهداية :3/ 6) 3۔الشركة ضربان: شركة أملاك، وشركة عقود. فشركة الأملاك: العين يرثها رجلان أو يشتريانها فلا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه، وكل منهما في نصيب صاحبه كالأجنبي" وهذه الشركة تتحقق في غير المذكور في الكتاب كما إذا اتهب رجلان عينا أو ملكاها بالاستيلاء أو اختلط مالهما من غير صنع أحدهما أو بخلطهما خلطا يمنع التمييز رأسا أو إلا بحرج. (الهداية :3/ 5) واعلم أن الشركة على ضربين شركة ملك وشركة عقد على ما نبين في أثناء البحث قال - رحمه الله - (شركة الملك أن يملك اثنان عينا إرثا أو شراء) وكذا استيلاء أو اتهابا أو ووصية أو اختلاط مال بغير صنع أو بصنعهما بحيث لا يتميز أو يعسر كالجنس بالجنس أو المائع بالمائع أو خلط الحنطة بالشعير. (تبيين الحقائق:3/ 313) (وهي ضربان: شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني. (رد المحتار:4/ 299) 4۔لأن هبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح فلم يثبت الملك رأسا. (بدائع الصنائع :1/ 57) هبة المشاع المحتمل للقسمة، هل هي فاسدة أو غير تامة؟ والأصح كما في البناية أنها غير تامة. (رد المحتار:5/ 690) یلزم ان یکون الموھوب القابل للقسمۃغیر شائع وقت قبضہ.لان القبض فی الھبۃ منصوص علیہ فیشترط الکمال فی المنصوص علیہ،وعلیہ فیدل النص علی الاعتناء والاہتمام بالمنصوص علیہ. فعلیہ یشترط القبض الکامل فی الھبۃ لتفید وتثبت للموھوب لہ الملک وفی ھبۃ المشاع لا یحصل القبض الکامل. )شرح المجلۃ: ،ص:388) 5۔(وأوفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا.) أراد بالعهد ما يلتزمه الإنسان على نفسه.{إن العهد كان مسئولا} قال السدي: كان مطلوبا .وقيل: العهد يسأل عن صاحب العهد فيقال: فيما نقضت كالمؤودة تسأل فيم قتلت؟. (تفسير البغوي:5/ 92) (وأوفوا بالعهد) أى بما عاهدكم الله من تكاليفه وما عاهدتم الناس عهدا مشروعا (إن العهد كان مسؤلا) أى مطلوبا يطلب من العاهد أن لا يضيعه ويفىء به أو مسئولا عنه فيسئل عن الناكث ويعاتب عليه أو يسئل العهد تبكيتا للناكث كما يقال للموءودة بأى ذنب قتلت ويجوز أن يراد صاحب العهد بحذف المضاف. (التفسير المظهري:5/ 439)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب