021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقف مسجد کی آمدنی کاحکم/مسجد کی زائد از ضرورت آمدنی کوفقراء ومساکین پر خرچ کرنا
57014وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ہماری مسجد کی آمدنی بہت زیادہ ہے اور مسجد کی ضروریات پر خرچ ہونے کے بعد بھی بہت زیادہ بچ جاتی ہے۔ مسجد چونکہ وقف ہے اور اس کی آمدنی اور مال جو تجارت میں لگایا ہے ،مسلسل بڑھ کر مسجد کی ضروریات سے زائد ہوچکا ہے۔کمیٹی والوں نے طے کیا ہے کہ اس زائد رقم کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے فقراء اور یتیموں میں تقسیم کر دیں گے۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا مسجد کی آمدنی کو ہم اس طرح غریبوں کو دے سکتے ہیں؟ اگر نہیں دے سکتے تو اس رقم کو کہاں خرچ کریں ،کیونکہ وہ ضرورت سے زائد ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وقف مسجد کی جو آمدنی فی الحال مسجد کی ضروریات سے زائد ہو اور آئندہ بھی مسجد کے لیے اس کی ضرورت نہ ہونے کا غالب گمان ہو، تو اس زائد آمدنی کو اس مسجد کے قریب ترین جو مسجد ہے اس کی ضروریات میں صرف کیا جائے۔اگر وہاں ضرورت نہ ہو تو اس کے بعد والی مسجد پر صرف کیا جائے پھر اسی طرح بالترتیب بعد والی مساجد میں صرف کیا جائے۔ اس آمدنی کو فقراءپر صرف کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر چندے کی آمدنی کے لیےیہ اعلان لگا دیا جائےکہ زائد رقم فقراء پر خرچ کی جائے گی تو آئندہ اس میں سے فقراء پر خرچ کرنے کی گنجائش ہوجائےگی۔مسجد کی آمدنی میں یہ ممکن نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(ومثله) في الخلاف المذكور (حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه) تفريع على قولهما درر وظاهره أنه لا يجوز صرف وقف مسجد خرب إلى حوض وعكسه وفي شرح الملتقى يصرف وقفها لأقرب مجانس لها . (الدر المختار: 4/ 359) قال العلامۃ ابن عابدین الشامیرحمہ اللہ تعالی:ونقل في الذخيرة عن شمس الأئمة الحلواني أنه سئل عن مسجد أو حوض خرب، ولا يحتاج إليه لتفرق الناس عنه هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد أو حوض آخر: فقال: نعم ومثله في البحر عن القنية وللشرنبلالي رسالة في المسألة اعترض فيها ما في المتن تبعا للدرر بما مر عن الحاوي وغيره، ثم قال وبذلك تعلم فتوى بعض مشايخ عصرنا بل ومن قبلهم كالشيخ الإمام أمين الدين بن عبد العال والشيخ الإمام أحمد بن يونس الشلبي والشيخ زين بن نجيم والشيخ محمد الوفائي فمنهم من أفتى بنقل بناء المسجد، ومنهم من أفتى بنقله ونقل ماله إلى مسجد آخر ... والذيينبغيمتابعةالمشايخالمذكورينفيجوازالنقلبلافرقبينمسجدأوحوض،كماأفتىبهالإمامأبوشجاعوالإمامالحلوانيوكفىبهماقدوة،ولاسيمافيزماننافإنالمسجدأوغيرهمنرباطأوحوضإذالمينقليأخذأنقاضهاللصوصوالمتغلبونكماهومشاهدوكذلكأوقافهيأكلهاالنظارأوغيرهم،ويلزممنعدمالنقلخرابالمسجدالآخرالمحتاجإلىالنقلإليه، ... وفيفتاوىالنسفي: سئلشيخالإسلامعنأهلقريةرحلواوتداعىمسجدهاإلىالخراب،وبعضالمتغلبةيستولونعلىخشبه،وينقلونهإلىدورهمهللواحدمنأهلالمحلةأنيبيعالخشببأمرالقاضي،ويمسكالثمنليصرفهإلىبعضالمساجدأوإلىهذاالمسجد؟قال: نعم. (رد المحتار:4/ 359) سئلشمسالأئمةالحلوانيعنمسجدأوحوضخربلايحتاجإليهلتفرقالناسهلللقاضيأنيصرفأوقافهإلىمسجدآخرأوحوضآخر؟قال: نعم. (الفتاوىالهندية:2/ 478) الفاضل من وقف المسجد هل يصرف إلى الفقراء ؟ قيل : لا يصرف وأنه صحيح ولكن يشتري به مستغلا للمسجد ، كذا في المحيط . (الفتاوىالهندية:19/ 270)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب