میں ایک سر کاری محکمہ میں ملا زم ہو ں اور الحمد اللہ نما ز با جما عت پڑھنے کا اہتما م کر تا ہو ں اور نماز کے بعد فضائل اعما ل کیتعلیم میں بھی بیٹھتا ہو ں ،ظا ہر ہے کہ وہا ں بیٹھنے کی وجہ سے کچھ دیر ہو جاتی ہے ،لیکن ہما را افسر صرف نما ز کی اجا زت دیتا ہے اور فضا ئل اعما ل کی تعلیم میں بیٹھنے سے منع کرتا ہے اور تا کید کر تا ہے کہ ڈیو ٹی پر بر وقت پہنچنے کا اہتما م کر یں ورنہ پھر آ پ کو برطر ف کر د یا جا ئے گا ۔ اب یہ معلو م کرنا ہے کہ کیا افسر کو شرعا منع کرنے کا اختیا ر حا صل ہے ؟ کیا افسر کی اجا زت کے بغیر فضا ئل اعما ل کی تعلیم میں میرا بیٹھنا شریعت کی روشنی ٹھیک ہے یا نہیں ؟
مہربا نی فر ماکر ان مسا ئل کا شرعی حکم بتا دیجئے!
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب افسر کی طرف سے صرف نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو فضا ئل اعما ل کی تعلیم یا اور کسی کا م ،مثلاً نوافل وغیر ہ میں مشغو ل ہو نا جا ئز نہیں ،بلکہ بروقت پہنچنا ضروری ہے ،جتنا وقت نوافل اور تعلیم میں لگائیں گےاتنی اجرت کے حقدار نہ ہوں گے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ للہ تعالی:وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ للہ تعالی:قوله:)وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة.
(رد المحتار على الدر المختار:9/118)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب