میرا ڈیکوریشن کا کام ہے۔ہمارے پاس شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیے ٹینٹ ،قالین اور کھانے میں استعمال ہونے والے ہر طرح کے برتن وغیرہ ہوتے ہیں۔یہ سارا سامان ہم نے باقاعدہ بازار سے خریدا ہوا ہوتا ہے۔ہم یہ سامان کرایہ پر دیتے ہیں اور طے شدہ کرایہ وصول کرتے ہیں۔کبھی یہ سامان ہمارے اپنے استعمال میں بھی آجاتا ہے۔کیا اس سامان پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ڈیکوریشن اور دیگر مذکورہ سامان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی،بلکہ ان کو کرایہ پر دینے سے جو آمدنی حاصل ہوگی وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس آمدنی پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية - (1 / 180)
ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة،
فتاوى قاضيخان - (1 / 123)
ولو اشترى قدوراً من صفر يمسكها أو يؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة
الدر المختار - (2 / 264)
( ولا في ثياب البدن ) المحتاج إليها لدفع الحر والبرد ابن ملك ( وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها ) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة غير أن الأهل له أخذ الزكاة وإن ساوت نصبا إلا أن تكون غير فقه وحديث وتفسير أو تزيد على نسختين منها هو المختار وكذلك آلات المحترفين إلا ما يبقى أثر عينه۔۔۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 265)
(قوله: وكذلك آلات المحترفين) أي سواء كانت مما لا تستهلك عينه في الانتفاع كالقدوم والمبرد أو تستهلك.