021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈیوٹی انجام دئے بغیر تنخواہ کاحکم
60748اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

کستان میں nitکے نام سے وزیراعظم یوتھ پروگرام ہے﴿ ایک سالہ ﴾متعارف ہوا ہے ،جوایسے طالبعموں کے لئے ہے جواپنی تعلیم سے فارغ ہوکر بے روز گار ہو ں ، ان کو ایک سالہ پروگرام کے تحت کسی گورنمٹ ادارے میں ڈیوٹی پر لگایا جاتا ہے ،اور ماہانہ 12000ہزار روپے تنخواہ دیجاتی ہے بندہ جب گریجویشن ( b a) فارغ ہوا تو اس پروگرام کے لئے فارم جمع کروایا جس میں بندہ کانام آگیا اور ایک سرکاری ادارہ میں ڈیوٹی بھی لگ گئی ۔ اس پروگرام کے لئے apply کے فورابعد کسی یونیور سٹی میں ماسٹرز ﴿ ma ﴾ کے لئے داخلہ لیا ۔ جس کی وجہ سے بندہ اس nit پروگرام کے تحت لگائی ہوئی ڈیوٹی کو انجام نہین دے سکتا ،حالانکہ nit کی طرف سے سال میں بیس دن چھٹی کرنے کی اجازت ہے ، واضح رہے اس پروگرام میں شامل 80 فیصد طلبہ /شرکاء ڈیوٹی انجام دئے بغیر یہ رقم وصول کرتے ہیں ۔ اب درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں ١۔ ڈیوٹی انجام دئیے بغیر یہ رقم ﴿12000ماہانہ ﴾ میں اپنی تعلیمی اخراجات پر خرچ کرسکتا ہوں یا نہیں ؟ ۲۔اگر مذکورہ پروگرام کی سالانہ بیس چھٹیوں کے علاوہ سرکاری ادارہ nitکی انتظامیہ سے دوتین ماہ کی چھٹی لے لیجائے تو یہ تنخواہ لیناجائز ہوگا یا نہیں ؟ ۳۔اگر بندہ اپنی جگہ کسی اور بندے کو ڈیوٹی پر لگادے اس شرط پر کہ مقررہ تنخواہ میں سے آدھی رقم ﴿6000﴾ بندہ خود لے گا اورآدھی رقم ڈیوٹی پر لگائے گئے شخص کو دے گا ، پھر آدھی رقم لینا بندہ کے لئے جائز ہے یا نہیں ؟ ۴۔ بندہ ڈیوٹی پر لگائے گئے شخص کو پوری تنخواہ دیتا رہے تو اس طرح کرنا بندہ کے لئے جائز ہوگا یانہیں؟ ملاحظہ ؛ چاروں صورتوں کا الگ الگ حکم بیان کرکے شاکر وممنوں فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔ ڈیوٹی انجام دئے بغیر تنخواہ وصول کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے ، 80فیصد لوگوں کے غلط کام کرنے سے یہ کام شرعا جائز نہ ہوگا، لہذااس طرح وصول کردہ تنخواہ کو اپنی ذات پریا کسی بھی مد میں خرچ کرنا جائز نہیں ،بلکہ حکومت کو واپس کرنا ضروری ہے ، ۲۔اس میں عموما نیچے کے افسران دونمبر کام کرتے ہیں کچھ مک مکا کرکے رخصت منظور کرلیتے ہیں ،جب قانونی طور پر صرف بیس دن کی چھٹی منظورہے ، تودھوکےسے دوتین ماہ کی رخصت منظور کرواکر کام کئے بغیر تنخواہ وصول کرناجائز نہیں ۔ ۳،۴۔ بقول سائل یہ پروگرام ان بے روز گار طلبہ کی مدد کے لئے ہےجنہوں نے تعلیم مکمل کرلی ہے ، جب آپ دوبارہ پڑھائی میں مشغول ہوگئے آپ کے پاس مقررہ ڈیوٹی پوری کرنے کی فرصت ہی نہیں تواس پروگرام سے الگ ہوجائیں ۔ کسی اور کو اپنی جگہ رکھنا بھی جائز نہیں ، البتہ وہ شخص اگر شرائط کے مطابق حکومت سے اجازت لیکر مذکورہ ادارے میں خدمات انجام دےگا تو وہی تنخواہ کا مستحق ہوگا ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 70) وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة تفسير القرطبي (19/ 250) وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذا كالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3) وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: الْمُطَفِّفُ: الرَّجُلُ يَسْتَأْجِرُ الْمِكْيَالَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ يَحِيفُ فِي كَيْلِهِ فَوِزْرُهُ عَلَيْهِ. وَقَالَ آخَرُونَ: التَّطْفِيفُ فِي الْكَيْلِ وَالْوَزْنِ والوضوء والصلاة والحديث. وفي الموطأ قال مالك: ويقال لكل شي وفاء وتطفيف. وروى عن سالم ابن أَبِي الْجَعْدِ قَالَ: الصَّلَاةُ بِمِكْيَالٍ، فَمَنْ أَوْفَى لَهُ وَمَنْ طَفَّفَ فَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ. الثَّالِثَةُ- قَالَ أَهْلُ اللُّغَةِ: الْمُطَفِّفُ مَأْخُوذٌ مِنَ الطَّفِيفِ، وَهُوَ الْقَلِيلُ، وَالْمُطَفِّفُ هُوَ الْمُقِلُّ حَقَّ صَاحِبِهِ بِنُقْصَانِهِ عَنِ الْحَقِّ، فِي كَيْلٍ أَوْ وَزْنٍ. وَقَالَ الزَّجَّاجُ: إِنَّمَا قِيلَ لِلْفَاعِلِ مِنْ هَذَا مُطَفِّفٌ، لِأَنَّهُ لَا يَكَادُ يَسْرِقُ مِنَ الْمِكْيَالِ وَالْمِيزَانِ إِلَّا الشَّيْءَ الطَّفِيفَ الْخَفِيفَ،
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب