021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے بعد نابالغ لڑکے کی پرورش کا حقدار کون ہے؟
59075طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

میں نے اپنی بیوی (مہرین) کو طلاق دیدی ہے، اس سے میرا ایک بیٹا (انس) ہے، میری والدہ محترمہ یہ چاہتی ہے کہ انس کی پرورش (تعلیم وغیرہ) انس کی پھوپھی کرے۔ تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ میرا یہ بیٹا انس چھ (6) سال کا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے بطورِ تمہید یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شرعاً لڑکے کی پرورش کا حق سات سال تک اس کی والدہ کو ہوتا ہے، البتہ اگر بچے کی والدہ اس کی پرورش سے انکار کردے، یا وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے شرعاً اس کا حقِ پرورش ختم ہو، مثلاً: (معاذ اللہ) مرتد ہوجائے، کسی ایسے شخص سے شادی کرے جو بچے کا ذی رحم محرم نہ ہو، یا وہ بچے کا خیال نہ رکھتی ہو جس کی وجہ سے اس کے پاس بچے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو ان صورتوں میں پرورش کا حق بچے کی نانی کو ملتا ہے، اور اگر نانی بھی پرورش نہ کرنا چاہتی ہو یا مندرجہ بالا اسباب میں سے کسی سبب سے اس کا حقِ پرورش ختم ہو تو ایسی صورت میں حقِ پرورش بچے کی دادی کو ملتا ہے، اس کے بعد بچے کی بہنیں، خالائیں اور پھوپھیاں بالترتیب بچے کی پرورش کی حقدار ہوتی ہیں۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے بچے انس (جوکہ چھ سال کا ہے) کی عمر سات سال ہونے تک اس کی پرورش میں مذکورہ بالا ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے، البتہ اگر اس کی والدہ، نانی، دادی اور خالائیں اس کی پرورش نہیں کرنا چاہتیں یا وہ مذکورہ بالا اسباب میں سے کسی وجہ سے پرورش کی حقدار نہ رہی ہوں تو ایسی صورت میں اس کی عمر سات سال ہونے تک پرورش کا حق پھوپھی کو ملے گا۔ اور سات سال عمر ہونے کے بعد کفالت کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس وقت اگر آپ اس کو اپنی بہن (انس کی پھوپھی) کی تربیت میں دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 555۔563) بإطلاقهم كما هو مذهب الشافعي أن الفاسقة بترك الصلاة لا حضانة لها، وفي القنية الأم أحق بالولد ولو سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم يعقل ذلك ( أو غير مأمونة ) ذكره في المجتبى بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعاً… ( أو متزوجةً بغير محرم ) الصغير ( أو أبت أن تربيه مجاناً و ) الحال أن ( الأب معسر والعمة تقبل ذلك ) أي تربيته مجاناً ولا تمنعه عن الأم، قيل للأم إما أن تمسكيه مجاناً أو تدفعيه للعمة ( ثم ) أي بعد الأم بأن ماتت أو لم تقبل أو أسقطت حقها ، أو تزوجت بأجنبي ( أم الأم ) وإن علت عند عدم أهلية القربى ( ثم أم الأب وإن علت ) بالشرط المذكور … ( ثم الأخت لأب وأم ثم لأم ) لأن هذا الحق لقرابة الأم ( ثم ) الأخت ( لأب ) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب ( ثم الخالات كذلك ) أي لأبوين ثم لأم ثم الأب ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ ( ثم العمات كذلك ). الفتاوى الهندية (1/ 542) والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده، وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول…….وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب، كذا في فتاوى قاضي خان.

عبداللہ ولی 

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

25/10/1438

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے