ایک خاتون کے شوہر نے اپنی بیوی کے نام سے بینک سے قسطوں پر گاڑی نکلوائی، اٹھارہ ماہ قسطیں ادا کرنے کے بعد قسطیں دينا بند کر دیں، کچھ عرصہ بعد اس نے شوہر ہونے کی برتری کا فائدہ اٹھا کر بیوی کی اجازت کے بغیر گاڑی فروخت کردی، جو کہ غیر قانونی عمل تھا، اس طرح کے دھوکہ دہی اور بد عنوانی کے معاملات کی وجہ سے خاتون نے عدالت کے ذریعہ خلع کی ڈگری لے لی، شادی کے بیس سال بعد اور آج سے سات سال قبل خلع لیا تھا، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کفالت میں ہے۔دس سال بعد کورٹ کے نوٹس سے پتہ چلا کہ بینک نے پیسوں کی وصولی کے لیے 2008ء میں عدلیہ سے رجوع کیا۔دو سال تک وہ شخص بیوی سے چھپ کر عدلیہ کو سچ جھوٹ بتا کر طول دیتا رہا، خاتون اس معاملے سے لاعلم تھیں۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ خاتون کی غیر موجودگی میں عدالت یک طرفہ سماعت کرتی رہی،دو بار عدلیہ نے خاتون کے خلاف ڈگری جاری کی۔اب جائیداد ضبط کرنے کے لیے کورٹ کا نوٹس ملا ہے۔معاملہ اتنا سنگین اور پریشان کن ہے کہ خاتون کے لیے اس معاملے کو کسی طرح بھی نبھانا ممکن نہیں رہا۔بات صرف اتنی ہے کہ خاتون کی جائیداد نیلام کی جائے گی یا اس کو جیل جانا پڑے گا، جس کے بعد بچوں کی دیکھ بھال کاکوئی انتظام نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ خاتون کی کسی طرح کی بھی کوئی جائیداد، فلیٹ، مکان اور بینک اکاؤنٹ وغیرہ نہیں ہے، اس کے پاس زیور وغیرہ بھی نہیں ہے۔ بچوں کے اخراجات اس کی بہن پورے کرتی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ:
کیا یہ خاتون زکوۃ کی مستحق ہے یا نہیں؟ نیز بتائیے کہ کیا حقیقی سگی بہن کو زکوۃ دی جا سکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال ميں ذكركرده صورتِ حال كے مطابق اگر اس خاتون کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے بقدرسونا،چاندی، نقدی ، سامانِ تجارت(بيچنے كي نيت سے خريدا گيا مال) اور ضرورت سے زائد سامان (جو سال بھر استعمال میں نہ آتا ہو) نہ ہو ، اور يہ خاتون ہاشمی(سیّد) بھی نہ ہو تو اس كو زكوة دينا جائز ہے، نيزحقيقی بہن كو بھی زكوة دی جا سكتی ہے۔
حوالہ جات
الفتاوی الھندیۃ(1/189) دارالفكر، بيروت۔
ولا یجوز الدفع الی من یملک نصابا أی مال کان دنانیر، أو دراہم، أو سوائم، أو عروضا للتجارۃ أو لغیرالتجارۃ فاضلا عن حاجتہ الأصلیۃ فی جمیع السنۃ کذا فی الزاہدی۔
الفتاوی الھندیۃ(1/189)دارالفكر، بيروت۔
ولا یدفع الی بنی ہاشم وہم آل علی، وآل عباس، وآل جعفر، وآل عقیل، وآل الحارث بن عبد المطلب کذا فی الہدایۃ۔
البحر الرائق (2/ 262)، دارالمعرفة، بيروت۔
قيد بأصله وفرعه لأن من سواهم من القرابة يجوز الدفع لهم وهو أولى لما فيه من الصلة مع الصدقة كالإخوة والأخوات والأعمام والعمات والأخوال والخالات الفقراء۔