021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچہ ماں کے نیچے دب کر مرجائے تو کیا حکم ہے؟
60771قصاص اور دیت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلےکے بارے میں کہ اگر کسی عورت کا بچہ اس کے نیچے دب کر مرجائے تو اس عورت کے لیے شریعت میں کفارہ کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوتے میں بچہ ماں کے نیچے دب کر مرجائے تو اس کے احکام درج ذیل ہیں: ا۔ماں بے احتیاطی کی وجہ سے گناہگار ہوئی،اس لیے ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار واجب ہے۔ ۲۔دو مہینے مسلسل روزے رکھے گی،اگرقمری مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع کیے تو چاند کے حساب سے دو مہینے شمار ہوں گے اور اگر پہلی تاریخ کو شروع نہ کیے تو ساٹھ روزے پورے کرے گی۔ ۳۔ ماں کو بچے کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ ۴۔عورت کے عاقلہ پر دیت)02ء34 کلو گرام چاندی(واجب ہوگی،جوعورت کے علاوہ بچے کے دوسرے ورثہ میں میراث کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ عاقلہ کی تفصیل: اگر قاتل اہل دیوان میں سے ہو یعنی کسی سرکاری محکمے سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے عاقلہ اہل دیوان ہوں گے یعنی اس شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ،اہل دیوان سے مراد وہ عاقل،بالغ لوگ ہیں جن کے نام سرکاری طور پر اس لیے درج ہوں کہ کسی خدمت کے عوض یا ضرورت کی بناء پر سرکاری خزانے سے وظیفہ لے رہے ہوں۔ دراصل عاقلہ کا مدار باہمی تعاون و تناصر پر ہے،یعنی وہ لوگ جو مشکل وقت میں ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے عاقلہ ہوتے ہیں،اس زمانے میں باہمی تعاون و تناصر کی کئی صورتیں ہیں،مثلا سیاسی جماعتیں،اہل حرفت تاجروں اور مزدوروں کی یونین یا تنظیمیں وغیرہ،لہذا اگر قاتل کسی سیاسی جماعت یا کسی تنظیم کا رکن ہو تو اس کی عاقلہ وہ جماعت یا تنظیم ہوگی۔ اور اگر کوئی قاتل نہ اہل دیوان میں سے ہو اور نہ ہی وہ کسی جماعت یا تنظیم کا فرد ہو تو اس کے عاقلہ اس کے ٕعصبہ )وہ قریبی رشتہ دار جو خود بھی مرد ہو اور اس کے ساتھ رشتے کی نسبت میں سب مرد ہوں،کسی عورت کا واسطہ بیچ میں نہ آئے،جیسے بیٹا،باپ،دادا،چچا وغیرہ(ہوں گے اور وراثت کی ترتیب کے مطابق ان پر دیت واجب ہوگی،یعنی پہلے بیٹوں پر،پھر باپ،دادا پر،پھر بھائیوں پر،پھر بھتیجوں پر،پھر چچاؤں پر،پھر چچازاد بھائیوں پر۔ بچے کی دیت دس ہزار درہم چاندی یا اس کی قیمت ہے،جس کی مقدار گرام کے لحاظ سے 02ء34کلو گرام بنتی ہے،جسے تین سالوں میں وصول کیا جائے گا اور ایک شخص سے ایک سال میں536ء4گرام چاندی سے زیادہ نہیں لیا جائے گا۔ نیز بچے کے باپ کو معاف کرنے کا بھی اختیار ہے،اگر وہ معاف کردے تو ماں کے ذمے سے دیت ساقط ہوجائے گی،مسئولہ صورت میں چونکہ ماں سے غلطی ہوئی ہے،اس لیے معاف کرنا ہی بہتر ہے۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (6/ 531): "(و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله) ؛ لأنه معذور كالمخطئ (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة". "الدر المختار " (6/ 573): "الدية في الشرع اسم للمال الذي هو بدل للنفس لا تسمية للمفعول بالمصدر، لأنه من المنقولات الشرعية. والأرش اسم للواجب فيما دون النفس (دية شبه العمد مائة من الإبل أرباعا من بنت مخاض وبنت لبون وحقة إلى جذعة) بإدخال الغاية (وهي) الدية (المغلظة لا غير و) الدية (في الخطإأخماس منها ومن ابن مخاض أو ألف دينار من الذهب أو عشرة آلاف درهم من الورق)". "الفتاوى الهندية "(6/ 83): "وأهل الديوان أهل الرايات، وهم الجيش الذين كتبت أساميهم في الديوان كذا في الهداية. إذا كان القاتل من أهل الديوان، فإن كان غازيا، وله ديوان يرتزق منه للقتال، فعاقلته من كان في ديوانه من الغزاة، وإن كان كاتبا، وله ديوان يرتزق منه، فعاقلته من كان يرتزق من ديوان الكتاب إن كانوا يتناصرون بها، وإن لم يكن له ديوان، فعاقلته أنصاره، فإن كانت نصرته بالمحال، والدروب يحمل عليهم، وإن كان من أهل القرية، ونصرته بأهل القرية يحمل عليهم كذا في المحيط. والحاصل أن العبرة في هذا للتناصر، وقيام البعض بأمر البعض، فإن كان أهل المحلة أو أهل السوق أو أهل القرية أو العشيرة بحال إذا وقع لواحد منهم أمر قاموا معه في كفايته، فهم العاقلة، وإلا، فإن كان له متناصرون من أهل الديوان، ومن العشيرة، والمحلة، والسوق، فأهل الديوان أولى، فإن لم يكن له متناصرون من أهل الديوان، فالمتناصرون من أهل العشيرة ثم بعد ذلك المتناصرون من أهل المحلة، والسوق كذا في الذخيرة. وإن كانوا لا يتناصرون بعضهم ببعض، فعاقلته عشيرته من قبل أبيه كذا في المحيط. ويقسم عليهم في ثلاث سنين لا يؤخذ من كل واحد في كل سنة إلا درهم أو درهم، وثلث درهم، ولا يزاد على كل واحد من كل الدية في ثلاث سنين على ثلاثة أو أربعة، فإن لم تتسع القبيلة لذلك ضم إليهم أقرب القبائل نسبا، ويضم الأقرب، فالأقرب على ترتيب العصبات، الإخوة ثم بنوهم ثم الأعمام ثم بنوهم". "الدر المختار "(6/ 542): وفي الدرر عن المسعودية: لو عفا المجروح أو الأولياء بعد الجرح قبل الموت جاز العفو استحسانا. "الدر المختار " (6/ 548): "عفو الولي عن القاتل أفضل من الصلح والصلح أفضل من القصاص، وكذا عفو المجروح. لا تصح توبة القاتل حتى يسلم نفسه للقود وهبانية". قال العلامة ابن عابدین رحمہ ﷲ:" (قوله عفو الولي عن القاتل أفضل) ويبرأ القاتل في الدنيا عن الدية والقود؛ لأنهما حق الوارث، بيري".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب