021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نوکری حاصل کرنے کے لیے اجرت دینے کا حکم
60255اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ایک شخص حکومت کے کسی محکمہ میں ملازمت کا اہل ہے،قانون کے مطابق تما م شرائط اس میں موجود ہے، لیکن رشوت یا سفارش کے بغیر اس کو ملازمت نہیں مل سکتی۔ اس صورت میں کوئی تیسرا شخص اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے اسے ملازمت دلواتا ہے اور اپنی اجرت اس سے طے کر لیتا ہے آیا یہ شرعاً جائز ہے ؟اور اجرت کی کوئی تعیین بھی ہے یا جس قدر طے کر لیں۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص میں نوکری کی اہلیت موجود ہو لیکن تمام کوششیں کرنے کے باوجود رشوت اور سفارش کے بغیر اس کو نوکری نہیں مل رہی ہو تو اس صورت میں اس کے لیے تیسرے شخص کو نوکری دلانے کے لیے اجرت پر رکھنا جائز ہے۔ البتہ نوکری دلوانے والا شرعی طریقے سے (مثلاً اپنے جان پہچان والوں سے سفارش کرے اور مجبوری کے بغیر رشوت نہ دے) نوکری دلوائے تو اس کے لیے اجرت لینا جائز ہے اور اگر وہ غیر شرعی طریقے سے (مثلاً ڈرا دھمکاکر یا اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے) نوکری دلوائے تو اس کے لیے اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة. وحكمها وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة…(قوله ساعة فساعة) ؛ لأن المنفعة عرض لا تبقى زمانين، فإذا كان حدوثه كذلك فيملك بدله كذلك قصدا للتعادل، لكن ليس له المطالبة إلا بمضي منفعة مقصودة كاليوم في الدار والأرض والمرحلة في الدابة" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/5 ط:دار الفکر-بیروت) "ومنها أن يكون العمل المستأجر له مقدور الاستيفاء من العامل بنفسه ولا يحتاج فيه إلى غيره …وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح بخلاف الاستئجار لكتابة الغناء والنوح أنه جائز؛ لأن الممنوع عنه نفس الغناء، والنوح لا كتابتهما وكذا لو استأجر رجلا ليقتل له رجلا أو ليسجنه أو ليضربه ظلما وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلا يكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانا لقطع عضو جاز.لأنه مقدور الاستيفاء؛ لأن محله معلوم فيمكنه أن يضع السكين عليه فيقطعه" (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع4/189 ط:دار الکتب العلمیۃ) "لا بأس بالرشوة إذا خاف على دينه والنبي - عليه الصلاة والسلام كان يعطي الشعراء ولمن يخاف لسانه وكفى بسهم المؤلفة من الصدقات دليلا على أمثاله" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/423 ط: دار الفکر)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب