کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آجکل کاٹن خریدنے والی جو ملز[Mills]باہر ممالک سے کاٹن خریدتی ہیں،ان کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ کاٹن کے تاجر سےیہ ملز دو طریقے سے معاملات طے کرتی ہیں(۱)پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ کاٹن کے تاجر سے کاٹن کی مقدار اور قیمت وغیرہ عقد کے وقت ہی طے کرلیتی ہیں،البتہ قبضہ نہ کاٹن پر کیا جاتا ہے،اور نہ ہی پیسوں پر۔بلکہ ایک مقرر کردہ مدت(جس کا تعین عقد کے وقت ہوجاتا ہے)پر رقم اور کاٹن کا تبادلہ کرتے ہیں۔اور عقد کے وقت جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ بیع کے الفاظ ہوتے ہیں،تاہم اگر وعدۂ بیع کے الفاط استعمال کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
(۲)دوسرا طریقہ،جس کو کاٹن کی مارکیٹ کی اصطلاح میں آن کال(On Call)بیع کہا جاتا ہے، یہ ہے کہ کاٹن کی قیمت کا تعین عقد کے وقت نہیں کرتے بلکہ کاٹن کا تاجر ملز کو ایک متعین وقت دیتا ہے کہ آپ کاٹن کی قیمت کا ایک ریٹ Fixکرلیں،اگر وہ ملز اُس متعین مدت کے اندر اندر کاٹن کی قیمت کاریٹ متعین کرلیتی ہیں تو اُسی قیمت پر معاہدہ ہوجاتا ہے،اور ملز کاٹن تاجروں سے خرید لیتی ہیں۔لیکن اگر ملز اُس وقتِ مقرر میں کاٹن کا ریٹ مقرر نہیں کرتیں تو پھر کاٹن کا جو ریٹ New York futureمیں چل رہا ہوتا ہے،اس ریٹ کے مطابق کاٹن کی قیمت کا تعین ہوجاتا ہے۔اور ملز کو اُس ریٹ کے مطابق کاٹن خریدنا ضروری ہوتا ہے۔ریٹ متعین ہونے پر دونوں کے درمیان بیع ہوجاتی ہے۔لیکن اگر وعدۂ بیع کے الفاظ استعمال کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
نیو یارک فیوچر کی تفصیل یہ ہے کہ یہ اسٹاک ایکسچینج کی طرح ایک ادارہ ہے۔ یہاں پر ایک clearing houseبھی ہوتا ہے جو روزانہ کی ہونے والی ٹرانزیکشنز کا تصفیہ کرتا ہے۔یہاں پر بھی hedgersاور speculatorsکی عمل داری ہوتی ہے۔speculatorsسے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں کوئی چیز خریدنا نہیں ہوتی،صرف فیوچر کنٹریکٹ خریدتے اور بیچتے ہیں اور جو فرق اس بیع شراء کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے،اسے حاصل کرلیتے ہیں۔اور hedgersسے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے حقیقی سودوں پر ہونے والے نفع کو یقینی بنانے کے لیے فیوچر مارکٹ کا رخ کرتے ہیں،اور فیوچر سودے خریدتے ہیں۔اس طریقہ کار کو hedgingکہتے ہیں۔hedgingکا مطلب یہ ہے کہ جو تاجر مستقبل کی تاریخ پر کاٹن فروخت کرتا ہے،اُسے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد کاٹن کی قیمت میں تغیر واقع ہوسکتا ہے،جس کے نتیجہ میں اُسے نقصان ہوسکتا ہے۔اس نقصان سے بچنے کے لیے وہ future marketsکا انتخاب کرتا ہے۔نیو یارک فیوچر میں پانچ مہینے ہوتے ہیں جن میں کاٹن کے ریٹ ایک مخصوص کاروباری طریقے سے اتار چڑھاؤ میں رہتے ہیں۔یہ پانچ مہینے مارچ،مئی،جولائی،اکتوبر اور دسمبر ہیں۔ان میں سے کسی بھی مہینہ کے ریٹ پر اگر کاٹن کی قیمت کا تعین ہوجاتا ہے تو پھر اس ریٹ کے حساب سے کاٹن خریدنا ضروری ہوتا ہے۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ ملز حقیقی طور پر کاٹن تاجروں سے خریدتی ہیں،ان کا مقصد نیویارک فیوچر میں رائج سٹہ بازی اور بیع قبل القبض جیسے سودے کرنا نہیں ہوتا۔ نیو یارک فیوچر میں چلنے والے کاٹن کے ریٹ کو صرف کاٹن کی قیمت کا تعین کرنے کے لیے معیارstandard بنایا جاتا ہے،اور باہر ممالک سے جب بھی کاٹن منگوائی جاتی ہے تو عموماً نیو یارک فیوچر کا اِس میں ضرور دخل ہوتا ہے،اور اربوں روپے کے سودے اس طریقے کار سے تاجروں کے یہاں رائج ہیں۔اس لیے یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ ما سبق میں بیان کردہ بیع کے دونوں طریقوں میں اگرملز کاٹن کی قیمت طے ہونے کے بعد خریدوفروخت کے معاملے کویکطرفہ طور پر فسخ کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں،لیکن اس صورت میں نیو یارک فیوچر کے اصول کے مطابق ریٹ میں جو کمی بیشی ہوئی ہوگی،اس حساب سے لین دین کرنا ہوگا،یعنی اگر ریٹ کم ہوئے ہونگے تو نقصان کی ادائیگی کرنا ہوگی،اور اگر ریٹ بڑھ گئے ہوں گے تو نفع لیا جائیگا۔نیو یارک فیوچر میں جس انداز سے ریٹ چل رہے ہوتے ہیں،اس کا نقشہ اگلے صفحہ پر چسپاں کررہا ہوں تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو۔اس طریقۂ بیع(دوسرے طریقہ)میں بھی الفاظ بیع کے استعمال کیے جاتے ہیں،لیکن وعدۂ بیع کرنے کی بھی گنجائش ہے،مثلاً ایک تاجر پانچ ہزار پاؤنڈ کاٹن فی پاؤنڈ تین ڈالر کے حساب سے ستمبر کے مہینہ میں خریدتا ہے، جسے وہ تین مہینہ کے بعد فروخت کرنا چاہتا ہے۔لیکن ساتھ ساتھ اُسے یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ کہیں تین مہینہ کے بعد کاٹن کی قیمت نہ گرجائے۔اِس اِحتمالی نقصان سے بچنے کے لیے وہ فیوچر مارکیٹ کا رخ کرتا ہے۔اور مذکورہ مقدار کے بقدر کاٹن تین مہینہ بعد کی سپردگی کی بنیاد پر فیوچر مارکیٹ میں فروخت کردیتا ہے۔اب جب دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو گندم کی قیمت فی پاؤنڈ ڈھائی ڈالر ہوچکی ہوتی ہے۔لہذا جو کاٹن اس نے فیوچر مارکیٹ میں فی پاؤنڈ تین ڈالر کے حساب سے بیچی ہوتی ہے وہ اُسے ڈھائی ڈالر میں خرید لیتا ہے۔اس طرح فیوچر مارکیٹ میں سودا کرنے کی وجہ سے اپنے آدھے ڈالر کا نقصان پورا کرلیتا ہے۔اس تفصیل کو ایک نقشہ کے ذریعہ سمجھئے:
عام مارکیٹ فیوچر مارکیٹ
ستمبر خرید: پانچ ہزار پاؤنڈ کاٹن،فی پاؤنڈ تین ڈالر فروخت: پانچ ہزار پاؤنڈ کاٹن،فی پاؤنڈ تین ڈالر
دسمبر فروخت: پانچ ہزار پاؤنڈ کاٹن،فی پاؤنڈ ڈھائی ڈالر خرید :پانچ ہزار پاؤنڈ کاٹن،فی پاؤنڈ ڈھائی ڈالر
نتیجہ خسارہ: آدھا ڈالر ربح :آدھا ڈالر
اس ساری تفصیل کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ اوپر بیان کردہ دونوں صورتوں میں ملز کا کاٹن تاجروں سے مذکورہ طریقے کے مطابق کاٹن خریدنا جائز ہے یا ناجائز؟جبکہ کاٹن بیچنے والے تاجر کے بارے میں حتمی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نیو یارک فیوچر میں عملی طور پر غیر شرعی طور پر معاملات کررہا ہے یا نہیں۔لیکن عام طور پر وہ اپنے نقصان سے بچنے کے لیے فیوچر سودے کرتے ہیں۔تاہم ملز کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا،انہیں صرف کاٹن مطلوب ہوتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آن کال(on call) کاٹن کی بیع کے بارے میں آپ نے کاٹن کی خرید و فروخت کے جو دو طریقے ذکر کیے ہیں،اُن دونوں طریقوں میں چونکہ کاٹن اور اُس کی قیمت پر قبضہ عقد کے وقت نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کاٹن متعین ہوتی ہے،بلکہ بعد میں ایک وقتِ مقرر پر اِن دونوں چیزوں پر قبضہ کیا جاتا ہے تو شرعاً اِس طرح خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛کیونکہ یہ معاملہ شرعاً بیع الکالی بالکالی کی قبیل سے ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔بیع الکالی بالکالی اِس بیع کو کہتے ہیں جس میں مبیع اور ثمن دونوں مؤجل ہوں،یعنی عقد کے وقت ان میں سے کسی ایک پر بھی قبضہ نہ کیا جائے،بلکہ مستقبل کی کسی متعین تاریخ پر دونوں پر قبضہ کیا جانا طے کیا گیا ہو۔بلکہ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ کاٹن بیچنے والے کی ملکیت میں ہی نہ ہو،ایسی صورت میں یہ غیر مملوک کی بیع ہے،جس کی حدیث میں صراحۃً ممانعت آئی ہے۔
البتہ اِس کے متبادل کے طور پر دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں:
(۱)پہلی صورت یہ ہے کہ ایسا انتظام کیا جائے کہ جس وقت بیع ہورہی ہو اُسی وقت کاٹن یا اُس کی قیمت پر قبضہ کرلیا جائے۔کاٹن پر قبضہ ہوگا تویہ ادھار بیع ہوگی اور اگر ثمن پر قبضہ ہوگا تو یہ بیع سلم ہوگی ،دونوں صورتوں میں ان بیوعات کی شرعی شرائط کی پابندی بھی ضروری ہوگی ۔اس صورت میں بیع منعقد اور لازم ہوجائےگی ،لہذا کسی ایک فریق کو یک طرفہ طور پرمعاملہ ختم کرنے کا اختیار نہیں ہوگا بلکہ عقدباہمی رضامندی سے فسخ ہوگا۔
(۲)دوسری صورت یہ ہے کہ ان دونوں معاملات میں وعدۂ بیع کرلیا جائے،یعنی یہ معاہدہ کیا جائے کہ’’ہم مستقبل کی فلاں تاریخ پر آپ سے اس مخصوص مقدار،اور مخصوص قیمت پر کاٹن خریدیں گے،پھر اُس مقررہ وقت پر باقاعدہ بیع(سودا)کریں۔اس حتمی کیے جانے والے معاملے میں نیو یارک فیوچر کے اس وقت کےریٹ کو ایک معار کے طور پر لیا جا سکتا ہےاگر چہ بہتر یہ ہے کہ آزادانہ طور پر ریٹ طے کیا جائے،نیز ایسی صورت میں محض وعدہ کرنےسےمعاملہ مکمل و لازم نہیں ہوگا،لہذاکسی فریق پر اس معاملے کی تکمیل لازم نہ ہوگی اور معالمے سے نکلنے والے فریق سے کسی تاوان کا مطالبہ بھی درست نہیں ہوگا ۔
حوالہ جات
عن حكيم بن حزام قال : أتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت يأتيني الرجل يسألني من البيع ما ليس عندي أبتاع له من السوق ثم أبيعه ؟ قال لا تبع ما ليس عندك.
)سنن الترمذي:3 / 534)
عن بن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم : أنه نهى عن بيع الكالئ بالكالئ قال اللغويون هو النسيئة بالنسيئة.
)سنن الدارقطني:3/ 72)
قد ذكرنا أن المتعاملين في سوق المستقبليات نوعان: الأول هم المخاطرون (Speculators) الذين لا يقصدون شراء السلع أو بيعها، أو تسليمها وتسلمها، وإنما يقصدون الحصول على فرق سعري البيع والشراء فحسب، وظاهر أنه غرض غير مشروع، لأنه استرباح بدون التجارة الحقيقية، وربح لما لم يضمنه الإنسان، وهو حرام بالنص الصريح. والنوع الثاني: هم الذين يريدون تأمين ربحهم (Hedging) على ما اشتروه في السوق الحقيقية، فيدخلون في سعر المستقبليات تجنبا عن الخسائر المحتملة بتقلبات الأسعار، كما وصفنا من قبل.... ولئن قامت هناك حاجة حقيقية للدخول في عقد يتأخر فيه تسليم المبيع، فالطريق المشرع له هو السلم، ويمكن أن يعقد بشروطه المعروفة في كتب الفقه. والله سبحانه وتعالى أعلم.
(بحوث في قضايا فقهية معاصرة:ص: 115)
(ب) شراء بضائع، أو إبرام عمليات مرابحة بنفس العملة. يجوز أن تتفق المؤسسة والعميل عند الوفاء بأقساط العمليات المؤجلة ( مثل المرابحة ) على سدادها بعملة أخرى بسعر يوم الوفاء.
(كتاب المعايير:ص: 1)