میری اہلیہ مرحومہ نے اپنی حیات میں اپنےکچھ زیورات ہمارے سب سے چھوٹے بیٹے سعد کو گفٹ (بطور ہدیہ) دینے کی نیت سے میرے پاس رکھوائے ہوئے تھےلیکن اپنی زندگی میں وہ اسے نہ دے سکی۔اب سوال یہ ہے کہ ان زیورات کی زکوۃ کا حکم کیا ہوگا ؟ اہلیہ کی طرف سے ادا کی جائے گی یا پھر جس بیٹے کے نام پر رکھے گئے ہیں اس کے ذمہ ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کی اہلیہ مرحومہ نے اپنی زندگی میں مذکورہ بیٹے کو دینے کے لئےآپ کے پاس جو زیورات رکھوائے اگر وہ عملاً اس بیٹے کو نہیں دئیے تھے توایسی صورت میں مذکورہ بیٹا ان زیورات کا مالک نہیں بنا بلکہ وہ بدستور آپ کی اہلیہ ہی کی ملکیت میں ہیں،لہٰذا ایسے میں یہ زیورات مرحومہ کی میراث ہونگےاور تمام ورثا ءکا اس میں حصہ ہوگا،البتہ اگر آپ کا بیٹانابالغ ہے اور آپ کی بیوی ہدیہ(گفٹ) کر چکی تھی مگر بیٹے کے لیے قبضہ آپ کو کرایا تھا تو یہ ہبہ تام ہو گیا ہےاور ایسے میں زیورات صرف اس بیٹے کے ہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا.
(الدر المختار:5 / 690)
وفی الفتاوى الهندية :ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض.
(4/ 374)
"وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول..... والقبض لا بد منه لثبوت الملك. ...ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: "لا تجوز الهبة إلا مقبوضة".
(الهداية في شرح بداية المبتدي :3 / 222)