021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حَکَمَین کا زوجین میں تفریق کرنا
60378اقرار اور صلح کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

فقہ کونسل برمنگھم (جوعلماء ہی کی ایک جماعت ہے)نے درج ذیل تحکیم فارم تیارکیاہے،آپ مفتیانِ کرام سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس فارم کا مطالعہ فرمائیں اوربتائیں کہ کوئی شوہراگر اس فارم پر دستخط کرلے تو فقہ کونسل کو فسخ وتفریقِ نکاح کا اختیارحاصل ہوجائےگا یانہیں ؟اگر نہیں ہوتا،توہونے کے لیے الفاظ کیاہونے چاہیے ؟زوج کوکونسل کی طرف سے دیاجانے والادرخواستِ تحکیم درجِ ذیل ہے،اس پر شوہردستخط کرتاہے: شوہرکا درخواستِ تحکیم فقہ کونسل برمنگھم شریعت کے پاک اصول کی مکمل پابندہے، میاں بیوی کے ہرمسئلہ میں پوری طرح سماعت کے بعد دونوں کے درمیان پائیدارمصالحت کی کوشش کرتی ہے اوراس میں ناکامی کی صورت میں ہر ایک کو اپنے اوپر کئے گئے الزامات کے دفاع کے لیے معقول موقع دیتی ہے ،اس کے بعد قرآن وسنت کی روشنی میں اگر نکاح برقراررکھنا متعین ہوتو برقراررکھنے کا فیصلہ کرتی ہے اوراگر ختم کردینا متعین ہوتو فسخِ نکاح اورتفریق کافیصلہ کرتی ہے، لہذا آپ پوری طرح مطمئن رہیں اوردرج ذیل جگہ پر مناسب سمجھیں تو اپنا دستخط کریں تاکہ فقہ کونسل مکمل اختیارات کے ساتھ آپ کے مسئلہ کا فیصلہ کرے۔ "میں فلاں بن فلاں زوج فلانہ بنت فلاں اپنی رضامندی سے بغیرکسی دباؤکے فقہ کونسل برمنگھم کو اپیل کرتاہوں کہ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ہم دونوں کے مسئلہ کافیصلہ مکمل اختیارات کے ساتھ کریں اورمیں قسم سے کہتاہوں کہ جوبھی بات میں بتاوں گا فقہ کونسل کو سچ ہوگی" دستخط ــــــــــــــــــــــــــ مورخہ ـــــــــــــــــــــــــ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ فقہ کونسل کوچاہیے کہ پہلے تو یہ کوشش کرے کہ میاں بیوی کے خاندان میں سے ایک ایک فرد کولیکر ان کو مصالحت کرانے پر امادہ کرے، کیونکہ یہ گھر کا مسئلہ ہے توپہلے گھر ہی میں اس کی حل کی کوشش ہونی چاہیے اوریہی قرآنی حکم ہے ،تاہم اگر وہ مصالحت کرانے میں کامیاب نہ ہوں توپھر کونسل اپنے طورپر مصالحت کرنے کی کوشش کرے، اگراس میں بھی کامیابی نہ ہوتو پھر ان سے اختیارنامہ لے اوراس میں صراحتاً طلاق تفویض کرنے کی بات ہومثلاً :میں اپنی رضامندی سے بغیر کسی دباؤ کے فقہ کونسل برمنگھم کو یہ اختیاردیتاہوں کہ اگروہ ہمارے مسئلہ میں طلاق کے علاوہ کسی اورحل پر نہ پہنچےتو وہ میری طرف سے میری بیوی کوطلاق دیدےاوریہ حق میں بخوشی ان کوتفویض کرتاہوں ۔اس طرح کااختیارنامہ مرد سے خاص طورپرلے اورعورت سے بھی فیصلے کرانے کاختیارنامہ لے ،اس کے بعد آخری کوشش کے طورپرصلح کی کو شش کرے اوران کویہ بھی بتائے کہ اب صلح نہیں کروگے توکونسل طلاق واقع کردے گی، اگرپھر بھی وہ صلح پر آمادہ نہ ہوں تو پھرکونسل طلاق کا فیصلہ کرے۔ آپ کےاختیارنامہ میں ذرا ابہام ہے کیونکہ اس میں طلاق کےاختیار دیئے جانے کا صراحۃً تذکرہ نہیں ،بہتریہ ہے کہ اس میں صراحۃً طلاق کی تفویض کاذکرہو،اس لیےکہ عام حالات میں حنفیہ ؒ اورشافعیہ ؒکے نزدیک حکمین کاکام صرف مصالحت کراناہے ،طلاق دینا نہیں ہوتا، الایہ کہ زوجین ان کو طلاق تفویض کریں،اس لیےاختیارنامہ میں طلاق کا ذکر صراحۃ ًہوناچاہئے ۔
حوالہ جات
وفی أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (3/ 151) ويدل أيضا قوله فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها على أن الذي من أهله وكيل له والذي من أهلها وكيل لها كأنه قال فابعثوا رجلا من قبله ورجلا من قبلها فهذا يدل على بطلان قول من يقول إن للحكمين أن يجمعا إن شاءا وإن شاءا فرقا بغير أمرهما. وقال العلامۃ المرغینانی: ولکل واحد من المحکمین ان یرجع مالم یحکم علیہما… واذا حکم لزمہما لصدور حکمہ عن ولایۃ علیہما۔ (الہدایۃ ۳:۱۴۴ باب التحکیم) يرى الحنفية والشافعية، في قول ، وأحمد بن حنبل في رواية والظاهرية أن مهمة الحكمين الإصلاح والتوفيق بين الزوجين وليس لهما التفريق إلا إذا كانا وكيلين عن الزوجين بذلك( أحكام القرآن للجصاص 2/191 وما بعدها ، المغني 10/264، المحلى 10/88، مغني المحتاج 2/261). ومن الأدلة التي استدلوا بها تأييداً لوجهة نظرهم ما يأتي: 1- قوله سبحانه وتعالى {وَلاَ تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَيْهَا}( سورة الأنعام، الآية 164) فالآية دليل على أنه لا يمضي تصرف أي شخص على شخص آخر إلا بالالتزام والتأييد منه، لذا ليس لأحد أن يطلق زوجة غيره، ولا أن يقوم بالتفريق بين الزوجين إلا إذا ورد النص بوجوب فسخ النكاح( المحلى 10/88). 2- إن مهمة الحكمين هي الإصلاح بين الزوجين كما نص بذلك القرآن الكريم بقوله: { إن يريدا إصلاحاً يوفق الله بينهما} ، فلم يقل القرآن الكريم إن يريدا فرقة، فإيفاد الحكمين هو لوعظ الظالم من الزوجين وإعلام الحاكم بذلك ليأخذ على يده( أحكام القرآن للجصاص 2/193 ). 3- الفراق إما يتم بالطلاق وهو حق الزوج، أو ببذل المال كبدل للخلع، وهو حق الزوجة، وهذان الأمران منوطان بهما فليس لأحد التماسهما إلا إذا صدر التوكيل والإذن من الزوجين( المصدر السابق ص 192، مغني المحتاج 3/261). 4- ويستدلون بأن سلطة الحكمين في التفريق لا أصل لها، لأن ذلك إما أن يكون مستمداً من الحاكم أو من الزوجين، فإن كانت مهمتهما مستمدة من الحاكم، فالحاكم نفسه لا يملك حق التفريق، وإن كانت من الزوجين فلا تصح بدون توكيل( أحكام القرآن 2/191 – 192). هذا الاستدلال قال به الحنفية بناء على نظريتهم في هذا الموضوع بأن القاضي لا يملك حق التفريق وهي حجة غير مسلم بها حتى من الذين قالوا برأي الحنفية في موضوع التحكيم فضلاً عن أن الحجج يجب أن تكون مسلماً بها من الطرفين، والطرف الآخر يعطي القاضي سلطة التفريق بين الزوجين في حالات متعددة( د. عبد الرحمن الصابوني ، مدى حرية الزوجين في الطلاق 2/711) . 5- ما روي عن علي ابن أبي طالب، رضي الله عنه، أنه جاءه رجل وامرأة ومعهما جمع من الناس فسألهم علي عن شأنهما، فقالوا: بينهما شقاق، فقال: فابعثوا حكماً من أهله وحكماً من أهلها إن يريدا إصلاحاً يوفق الله بينهما. ثم قال للحكمين: أتدريان ما عليكما؟ عليكما إن رأيتما أن تجمعا أن تجمعا، وإن رأيتما أن تفرقا أن تفرقا. فقالت المرأة رضيت بكتاب الله ، وقال الرجل أما الفرقة فلا. فقال علي: كذبت والله لا تنفلت مني حتى تقركما أقرت. ووجه الاستدلال : أن حكم الحكمين لا يكون إلا بتوكيل من الزوجين ورضا منهما ، ولهذا أمر على الزوج أن يقبل التحكيم، فلو لم يكن ذلك لما طلب عليّ منه الموافقة على التحكيم ، فدل هذا على أن الحكمين ليس لهما سلطة التفريق إلا بتفويض من الزوجين( أحكام القرآن للجصاص 2/191، 192) .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب