03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضارب کا مضاربت کےکاروبار میں اجیر رکھنا/عقد کے بغیرمضارب کےساتھ مل کرکام کی صورت میں تیسرا فریق بحکم اجیر ہوگا
60410مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص نے میرے تایا کو تین لاکھ روپے دیے اور کہا کہ اسے اپنی مرضی سےکسی بھی کاروبارمیں لگاؤ۔ دونوں کے دمیان یہ طے ہوا کہ جو بھی نفع ہوگا وہ آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔تایا نے کاروبار میں سرمایہ لگادیا اور آہستہ آہستہ کاروبار بڑھتا رہا ،پھر میرے تایا نے وقتاً فوقتاً اپنی رقم جو آدھے نفع کی صورت میں انہیں ملتی تھی وہ بھی کاروبار میں شامل کرنا شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد میرے والد اور چچا نے بھی تایا کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیااور تایا بھی کاروبار سے متعلق کاموں کی ذمہ داریاں والد اور چچا کو دینے لگے۔تایا کا والد صاحب اور چچا سے کوئی بھی معاہدہ یا بات طے نہیں ہوئی بس انہوں نے خود ہی کام شروع کردیاتھا اورانہیں ساتھ کام کرتے ہوئے تقریبا چار ماہ سے زیادہ وقت گزر گیا ہے۔اب کیا میرے والد اور چچا بھی اس کاروبار میں حصہ دار مانیں جائیں گے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کےتایااوران کے دیگر بھائیوں(آپ کےوالد اور چچا) کےدرمیان باقاعدہ مضاربت یااجارہ کاکوئی معاملہ نہیں ہوا،بلکہ کسی معاملہ کی تصریح کےبغیرہی انہوں نےکام شروع کردیاتھا۔اس کاتقاضایہ ہےکہ بھائیوں کاعمل تبرع سمجھاجائےاوروہ اس پرکسی قسم کی اُجرت کےمستحق نہ ہوں۔لیکن اجارہ کےباب میں فقہاءِکرام کی ذکرکردہ بعض جزئیات سےمعلوم ہوتاہےکہ بسااوقات کوئی شخص بلاعقدبھی اُجرت کامستحق قرارپاتاہےجب کہ اس نےعمل کیاہو،اورعمل پراُجرت ملنےکاعُرف ہواورآجکل معروف یہی ہےکہ کوئی شخص تبرعاً کام نہیں کرتا،خصوصاً جب اس کومعلوم ہوجائےکہ اس کومحنت کاکوئی صلہ نہیں ملےگاتووہ کبھی بھی اس کاروبارمیں محنت نہیں کرے گا۔ لہٰذایہ معاملہ اجارہ ہوگااورصورتِ مسئولہ میں تایاکے بھائیوں یعنی آپ کےوالداورچچا ، تایا کےاجیرہیں اوران کواپنےعمل کی اجرتِ مثل ملےگی۔یہ اُجرت بنیادی طورپرتایاکے ذمہ لازم ہوگی۔
حوالہ جات
(الدر المختار:6 / 42) وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له. وفي الدرر:دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز، ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل. (ويملك المضارب في المطلقة) التي لم تقيد بمكان أو زمان أو نوع (البيع) ولو فاسدا بنقد ونسيئة متعارفة، والشراء والتوكيل بهما، والسفر برا وبحرا) ولو دفع له المال في بلد على الظاهر ..والإجارة والاستئجار فلو استأجر أرضا بيضاء ليزرعها أو يغرسها جاز) ظهيرية (الدر المختار:5 / 648) وفي شرح المجلة:ثم إن الثانية (أي إذا ضارب المضارب الأول رجلا فالمضاربة الثانية )إذا كانت فاسدة والأولی صحيحة كان للثاني أجر المثل علی المضارب الأول ويرجع به الأول علی رب المال والوضيعة علی رب المال ، والربح بين الأول ورب المال علی ما شرطا بعد أخذ الثانی أجرته كما فی البحر ۔ (4 / 350 ) الاستئجار , أي أن له استئجار الأجير والسفن والحيوانات للعمل واستئجار المنازل لحفظ مال المضاربة كما أن له استئجار الأراضي للزراعة (درر الحكام شرح مجلة الأحكام :3 / 468) يتولى المضارب بنفسه كل الأعمال التي يتولاها المستثمرون مثله بحسب العرف. ولا يستحق أجرا على ذلك؛ لأنها من واجباته. فإذا استأجر من يقوم له بذلك فأجرته من ماله الخاص وليس من مال المضاربة، ويجوز له أن يستأجر لأداء ما لم يجب عليه من الأعمال بحسب العرف على حساب المضاربة. (كتاب المعايير:1 / 142)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب