021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آڑھتی کے کمیشن سے متعلق چند مسائل
60381اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

طے شدہ ضابطہ ہے کہ اگر آڑھتی حضرات خود عاقد ہوں تو صرف اس شخص سے ہی کمیشن لے سکتے ہیں جس کی طرف سے انہوں نے عقد کیا ہو، دوسرے فریق سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ لیکن اگر آڑھتی خود عاقد نہ ہوں بلکہ زمین دار اور خریدار کے درمیان معاملہ کرانے کا ذریعہ ہوں، اصل لین دین عاقدین خود کریں تو پھر جیسا عرف ہو، اس کے مطابق یک طرفہ کمیشن بھی لیا جاسکتا ہے اور دو طرفہ بھی۔ اب پوچھنا یہ ہے : (1)۔۔۔ اگر آڑھتی خود عاقد ہو اور آخری بولی لگ جانے کے بعد زمین دار سے فون پر مشورہ کرلیتا ہو کہ یہ ریٹ لگ رہا ہے، اس ریٹ پر مال بیچوں یا نہیں؟ پھر جیسے زمین دار کہے، آڑھتی اسی مالک کے مشورہ کے مطابق لین دین کرے۔ یعنی مشتری سے لین دین آڑھتی خود ہی کرتا ہو البتہ مال بیچتے وقت مالک کی رضامندی معلوم کرلیتا ہو تو آیا زمین دار سے فون پر مشورہ کرلینے سے یہ آڑھتی "عاقد" باقی رہے گا یا "دلال" بن جائے گا؟ یعنی صرف مالکِ غلہ سے ہی "وکالت" کا کمیشن لے سکے گا یا مشورہ کرلینے کی وجہ سے وہ "دلال" بن جائے گا اور دو طرفہ کمیشن لینے کا حق دار بھی ہوگا؟ اگر دلالی کے لئے محض مشورہ کرلینا کافی ہو (جیساکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں) تو پھر مجلہ کی عبارت "إذا باع الدلال مالاً بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع" میں "اذنِ بائع" کی کیا حدود ہوں گی؟ یعنی آڑھتی کا بائع سے مشورہ کرکے مال خود بیچنا "اذنِ بائع" کے عموم میں داخل ہوگا یا نہیں؟ نیز اگر بہت سے لوگوں کا وکیل اپنے مؤکلوں کے مشورہ سے معاملات کرے تو کیا اس پر "دلال" کے احکام جاری ہوں گے؟ (2)۔۔۔ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خریدار کا طے کردہ ریٹ، زمین دار کو بتانے اور ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی اور عدمِ رضامندی، مشتری تک پہنچانے کی وجہ سے آڑھتی "قاصد" بن جاتا ہے لہٰذا مال خود بیچنے کے باوجود دونوں سے پیغام رسانی کا "کمیشن" لے سکتا ہے؟ (3)۔۔۔ آڑھتی حضرات کا خود کو "کمیشن ایجنٹ" کہلوانے سے دو طرفہ کمیشن لینا جائز ہوجائے گا یا معاملہ کی نوعیت کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا؟ حالانکہ صورتِ مسئولہ میں آڑھتی حضرات کی ساری خیر خواہی، زمین دار ہی کے لیے ہوتی ہے۔ مشتری کے لیے کوئی کام نہیں کرتے۔ (4)۔۔۔ کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ چونکہ آڑھتیوں نے مشتری کو یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ ایک ہی جگہ اسے معیاری سامان مل جاتا ہے، لہٰذا اس سہولت کی فراہمی کی وجہ سے وہ مشتری سے بھی کمیشن لینے کے حق دار ہوگئے۔ کیا دو طرفہ کمیشن لینے کے لئے یہ وجۂ جواز بن سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ اس سوال کے جواب کا دار ومدار "عاقد" کی تعریف اور "وکیل" اور "رسول" کے درمیان فرق واضح کرنے پر ہے۔ اس لیے جواب سے پہلے ان امور کو ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فقہائے کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے: (الف)۔۔۔ "عاقد" وہ شخص کہلاتا ہے جو براہِ راست خود عقد کرے (خواہ اپنے لیے کرے، کالأصیل، یا کسی اور کے لیے، کالوکیل إذا لم یضف إلی المؤکل والوصی) یا کوئی اور اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کے لیے عقد کرے (کالمؤکل إذا أضاف الوکیل العقد إلیہ)۔ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے: المراد بالعاقدين : كل من يتولى العقد ، إما أصالة كأن يبيع أو يشتري لنفسه ، أو وكالة كأن يعقد نيابة عن الغير بتفويض منه في حياته ، أو وصاية كمن يتصرف خلافة عن الغير في شئون صغاره بعد وفاته بإذن منه أو من قبل الحاكم .( الموسوعة الفقهية الكويتية : 30/ 219) (ب)۔۔۔ "وکیل" وہ شخص کہلاتا ہے جو دوسرے شخص کی نیابت میں اس کی اجازت سے کوئی عقد سرانجام دے۔ (ج)۔۔۔ "رسول" وہ شخص کہلاتا ہے جو ایک شخص کی بات دوسرے تک پہنچائے، تصرفات میں اس کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ (د)۔۔۔ شارحِ مجلہ علامہ علی حیدر رحمہ اللہ تعالی نے "وکیل" اور "رسول" کے درمیان پانچ فرق ذکر کیے ہیں: 1. پہلا فرق "وکیل اور "رسول" کی ماہیت میں ہے، یعنی وکیل کو تصرفات کا اختیار ہوتا ہے، جبکہ رسول صرف بات پہنچاتا ہے، تصرفات کا اختیار اس کو نہیں ہوتا۔ 2. وکالۃ میں عقد سے متعلق جملہ حقوق وکیل کی طرف راجع ہوتے ہیں، جبکہ رسالۃ میں عقد کے تمام حقوق مرسِل کی طرف راجع ہوتے ہیں، نہ کہ رسول کی طرف۔ 3. وکیل کی معزولی کے لیے بعض اوقات وکیل کو معزولی کا معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے، جبکہ رسول کے معزول ہونے کے لیے اس کا علم بالعزل ضروری نہیں۔ 4. رسول پر یہ بات لازم ہے کہ وہ عقد کی نسبت مرسِل کی طرف کرے، جبکہ وکیل کو اختیار ہے، چاہے تو مؤکل کی طرف نسبت کرے (اس صورت میں یہ بھی رسول کے حکم میں ہوجائے گا)، اور اگر چاہے تواس کی طرف نسبت نہ کرے۔ 5. وکالت کا انعقاد اکثر وکالت کے الفاظ سے ہوتا ہے، اور رسالت کا رسالت کے الفاظ سے۔ شارحِ مجلہ علامہ علی حیدر رحمہ اللہ تعالیٰ وکالت اور رسالت کی تعریف اور وکیل اور عاقد، وکیل اور رسول کی تعریفات اور ان کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آڑھتی خود عاقد ہو (جیساکہ آنجناب نے سوال میں لکھا ہے) یعنی وہ عقد کی نسبت مؤکل کی طرف نہ کرے، عقد کے تمام تصرفات کا اختیار اس کو حاصل ہو، اور عقد کے حقوق (مبیع اورثمن کا تسلیم وتسلم وغیرہ) بھی اس کی طرف راجع ہوں تو ایسی صورت میں وہ زمین دار کا وکیل سمجھا جائے گا، صرف مؤکل یعنی زمین دار سے مشورہ کرنے کی وجہ سے وہ "وکیل" اور "عاقد" ہونے سے نہیں نکلے گا، لہٰذا کمیشن بھی صرف زمین دار (بائع) ہی سے لے گا، مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ (2)۔۔۔ نمبر1 میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر آڑھتی عقد خود کرے تو صرف خریدار کے طے کردہ ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی یا عدمِ رضامندی معلوم کرنے کی وجہ سے اُس کے لیے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ (3)۔۔۔ فقہ کا مسلمہ اصول ہے "العبرة للمعنى دون الألفاظ"( )، یعنی احکام کا دار ومدار الفاظ پر نہیں، مقاصد ومعانی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آڑھتی بائع یعنی زمیندار کے وکیل ہونے کی حیثیت سے عقد کررہا ہو تو وہ کمیشن بھی صرف بائع ہی سے لے گا، صرف اپنے آپ کو "کمیشن ایجنٹ" کہنے کی وجہ سے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ عاقد، وکیل اور رسول کی تعریفات اور ان کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آڑھتی خود عاقد ہو (جیساکہ آنجناب نے سوال میں لکھا ہے) یعنی وہ عقد کی نسبت مؤکل کی طرف نہ کرے، عقد کے تمام تصرفات کا اختیار اس کو حاصل ہو، اور عقد کے حقوق (مبیع اورثمن کا تسلیم وتسلم وغیرہ) بھی اس کی طرف راجع ہوں تو ایسی صورت میں وہ زمین دار کا وکیل سمجھا جائے گا، صرف مؤکل یعنی زمین دار سے مشورہ کرنے کی وجہ سے وہ "وکیل" اور "عاقد" ہونے سے نہیں نکلے گا، لہٰذا کمیشن بھی صرف زمین دار (بائع) ہی سے لے گا، مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ (2)۔۔۔ نمبر1 میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر آڑھتی عقد خود کرے تو صرف خریدار کے طے کردہ ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی یا عدمِ رضامندی معلوم کرنے کی وجہ سے اُس کے لیے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ (3)۔۔۔ فقہ کا مسلمہ اصول ہے "العبرة للمعنى دون الألفاظ"( )، یعنی احکام کا دار ومدار الفاظ پر نہیں، مقاصد ومعانی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آڑھتی بائع یعنی زمیندار کے وکیل ہونے کی حیثیت سے عقد کررہا ہو تو وہ کمیشن بھی صرف بائع ہی سے لے گا، صرف اپنے آپ کو "کمیشن ایجنٹ" کہنے کی وجہ سے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ عاقد، وکیل اور رسول کی تعریفات اور ان کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آڑھتی خود عاقد ہو (جیساکہ آنجناب نے سوال میں لکھا ہے) یعنی وہ عقد کی نسبت مؤکل کی طرف نہ کرے، عقد کے تمام تصرفات کا اختیار اس کو حاصل ہو، اور عقد کے حقوق (مبیع اورثمن کا تسلیم وتسلم وغیرہ) بھی اس کی طرف راجع ہوں تو ایسی صورت میں وہ زمین دار کا وکیل سمجھا جائے گا، صرف مؤکل یعنی زمین دار سے مشورہ کرنے کی وجہ سے وہ "وکیل" اور "عاقد" ہونے سے نہیں نکلے گا، لہٰذا کمیشن بھی صرف زمین دار (بائع) ہی سے لے گا، مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ (2)۔۔۔ نمبر1 میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر آڑھتی عقد خود کرے تو صرف خریدار کے طے کردہ ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی یا عدمِ رضامندی معلوم کرنے کی وجہ سے اُس کے لیے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ (3)۔۔۔ فقہ کا مسلمہ اصول ہے "العبرة للمعنى دون الألفاظ"( )، یعنی احکام کا دار ومدار الفاظ پر نہیں، مقاصد ومعانی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آڑھتی بائع یعنی زمیندار کے وکیل ہونے کی حیثیت سے عقد کررہا ہو تو وہ کمیشن بھی صرف بائع ہی سے لے گا، صرف اپنے آپ کو "کمیشن ایجنٹ" کہنے کی وجہ سے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ عاقد، وکیل اور رسول کی تعریفات اور ان کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آڑھتی خود عاقد ہو (جیساکہ آنجناب نے سوال میں لکھا ہے) یعنی وہ عقد کی نسبت مؤکل کی طرف نہ کرے، عقد کے تمام تصرفات کا اختیار اس کو حاصل ہو، اور عقد کے حقوق (مبیع اورثمن کا تسلیم وتسلم وغیرہ) بھی اس کی طرف راجع ہوں تو ایسی صورت میں وہ زمین دار کا وکیل سمجھا جائے گا، صرف مؤکل یعنی زمین دار سے مشورہ کرنے کی وجہ سے وہ "وکیل" اور "عاقد" ہونے سے نہیں نکلے گا، لہٰذا کمیشن بھی صرف زمین دار (بائع) ہی سے لے گا، مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ (2)۔۔۔ نمبر1 میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر آڑھتی عقد خود کرے تو صرف خریدار کے طے کردہ ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی یا عدمِ رضامندی معلوم کرنے کی وجہ سے اُس کے لیے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ (3)۔۔۔ فقہ کا مسلمہ اصول ہے "العبرة للمعنى دون الألفاظ"( )، یعنی احکام کا دار ومدار الفاظ پر نہیں، مقاصد ومعانی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آڑھتی بائع یعنی زمیندار کے وکیل ہونے کی حیثیت سے عقد کررہا ہو تو وہ کمیشن بھی صرف بائع ہی سے لے گا، صرف اپنے آپ کو "کمیشن ایجنٹ" کہنے کی وجہ سے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ عاقد، وکیل اور رسول کی تعریفات اور ان کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آڑھتی خود عاقد ہو (جیساکہ آنجناب نے سوال میں لکھا ہے) یعنی وہ عقد کی نسبت مؤکل کی طرف نہ کرے، عقد کے تمام تصرفات کا اختیار اس کو حاصل ہو، اور عقد کے حقوق (مبیع اورثمن کا تسلیم وتسلم وغیرہ) بھی اس کی طرف راجع ہوں تو ایسی صورت میں وہ زمین دار کا وکیل سمجھا جائے گا، صرف مؤکل یعنی زمین دار سے مشورہ کرنے کی وجہ سے وہ "وکیل" اور "عاقد" ہونے سے نہیں نکلے گا، لہٰذا کمیشن بھی صرف زمین دار (بائع) ہی سے لے گا، مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ (2)۔۔۔ نمبر1 میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر آڑھتی عقد خود کرے تو صرف خریدار کے طے کردہ ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی یا عدمِ رضامندی معلوم کرنے کی وجہ سے اُس کے لیے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ (3)۔۔۔ فقہ کا مسلمہ اصول ہے "العبرة للمعنى دون الألفاظ"( )، یعنی احکام کا دار ومدار الفاظ پر نہیں، مقاصد ومعانی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آڑھتی بائع یعنی زمیندار کے وکیل ہونے کی حیثیت سے عقد کررہا ہو تو وہ کمیشن بھی صرف بائع ہی سے لے گا، صرف اپنے آپ کو "کمیشن ایجنٹ" کہنے کی وجہ سے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ عاقد، وکیل اور رسول کی تعریفات اور ان کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آڑھتی خود عاقد ہو (جیساکہ آنجناب نے سوال میں لکھا ہے) یعنی وہ عقد کی نسبت مؤکل کی طرف نہ کرے، عقد کے تمام تصرفات کا اختیار اس کو حاصل ہو، اور عقد کے حقوق (مبیع اورثمن کا تسلیم وتسلم وغیرہ) بھی اس کی طرف راجع ہوں تو ایسی صورت میں وہ زمین دار کا وکیل سمجھا جائے گا، صرف مؤکل یعنی زمین دار سے مشورہ کرنے کی وجہ سے وہ "وکیل" اور "عاقد" ہونے سے نہیں نکلے گا، لہٰذا کمیشن بھی صرف زمین دار (بائع) ہی سے لے گا، مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ (2)۔۔۔ نمبر1 میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر آڑھتی عقد خود کرے تو صرف خریدار کے طے کردہ ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی یا عدمِ رضامندی معلوم کرنے کی وجہ سے اُس کے لیے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ (3)۔۔۔ فقہ کا مسلمہ اصول ہے "العبرة للمعنى دون الألفاظ"( )، یعنی احکام کا دار ومدار الفاظ پر نہیں، مقاصد ومعانی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آڑھتی بائع یعنی زمیندار کے وکیل ہونے کی حیثیت سے عقد کررہا ہو تو وہ کمیشن بھی صرف بائع ہی سے لے گا، صرف اپنے آپ کو "کمیشن ایجنٹ" کہنے کی وجہ سے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ رسول کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:عاقد، وکیل اور رسول کی تعریفات اور ان کے درمیان فرق واضح ہوجانے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آڑھتی خود عاقد ہو (جیساکہ آنجناب نے سوال میں لکھا ہے) یعنی وہ عقد کی نسبت مؤکل کی طرف نہ کرے، عقد کے تمام تصرفات کا اختیار اس کو حاصل ہو، اور عقد کے حقوق (مبیع اورثمن کا تسلیم وتسلم وغیرہ) بھی اس کی طرف راجع ہوں تو ایسی صورت میں وہ زمین دار کا وکیل سمجھا جائے گا، صرف مؤکل یعنی زمین دار سے مشورہ کرنے کی وجہ سے وہ "وکیل" اور "عاقد" ہونے سے نہیں نکلے گا، لہٰذا کمیشن بھی صرف زمین دار (بائع) ہی سے لے گا، مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔ (2)۔۔۔ نمبر1 میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر آڑھتی عقد خود کرے تو صرف خریدار کے طے کردہ ریٹ سے متعلق زمین دار کی رضامندی یا عدمِ رضامندی معلوم کرنے کی وجہ سے اُس کے لیے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ (3)۔۔۔ فقہ کا مسلمہ اصول ہے "العبرة للمعنى دون الألفاظ"( )، یعنی احکام کا دار ومدار الفاظ پر نہیں، مقاصد ومعانی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آڑھتی بائع یعنی زمیندار کے وکیل ہونے کی حیثیت سے عقد کررہا ہو تو وہ کمیشن بھی صرف بائع ہی سے لے گا، صرف اپنے آپ کو "کمیشن ایجنٹ" کہنے کی وجہ سے مشتری سے کمیشن لینا جائز نہیں۔

حوالہ جات
مادة (1449)ـــ: (الوکالة هی تفویض أحد فی شغل لآخر وإقامته مقامه فی ذلك الشغل، ویقال لذلك الشخص موکِّل، ولمن أقامه وکیل، ولذلك الأمر موکَّل به………الخ مادة (1450) ـــ: (الرسالة هی تبلیغ أحد کلام الآخر لغیره من دون أن یکون له دخل فی التصرف، ویقال للمبلِّغ رسول، ولصاحب الکلام مرسِل، وللآخر مرسَل إلیه)….. والحاصل أن الوکیل هو من باشر العقد، والرسول هو مبلغ مباشرة العقد، وشرط الرسالة أن یضاف العقد إلی المرسل، یعنی أن یقول الرسول: إنی مرسَل وإنی بعتك هذا المال بکذا (تکملة رد المحتار)….. والوکیل لایجبر علی إضافة العقد، فإن شاء أضاف العقد إلی نفسه ویجری حکم الوکالة فی هذا الحال، وإن شاء أضافه إلی موکله، وعلی هذه الصورة یراعی حکم الرسالة، أما الرسول فیجبر علی إضافة العقد إلی مرسله. الفرق بین الرسالة والوکالةـــ:یوجد بین الوکالة (والرسالة) فرق علی خمسة وجوه: 1 - الفرق من حيث الماهية قد ذكر في المادتين السالفتي البيان. 2 - تعود حقوق العقد في الوكالة للوكيل , أما في الرسالة فلا تعود للرسول حقوق العقد بل تعود جميعها للمرسل , انظر المادتين ( 1461 و 1462 ) – . 3 ــ قد يتم عزل الوكيل , على ما هو مبين في المادة ( 1523 ) بلحوق علم الوكيل بعزله , ولا يشترط في عزل الرسول لحوق علمه , كما سيوضح في شرح المادة المذكورة. 4 - يلزم في الرسالة أن يضيف الرسول العقد إلى موكله الذي هو مرسله . أما في الوكالة فالوكيل مخير إن شاء أضافه إلى نفسه وإن شاء أضافه إلى موكله( تكملة رد المحتار في الوديعة بزيادة ). 5 - تنعقد الوكالة على الأكثر بألفاظ الوكالة , أما الرسالة فتنعقد على الأكثر بألفاظ الرسالة ( رد المحتار ). (درر الحکام شرح مجلة الاحکام: 3/26۔524) مجلۃ الأحکام العدلیۃ میں وکیل اور رسول کے احکام بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: مادة 1461: لا تشترط إضافة العقد إلى الموكل في البيع والشراء والإجارة والصلح عن إقرار فإن لم يضفه إلى موكله واكتفى بإضافته إلى نفسه صح أيضاً وعلى كلتا الصورتين لا تثبت الملكية إلا لموكله ولكن إن لم يضف العقد إلى الموكل تعود حقوق العقد إلى العاقد يعني الوكيل وإن أضيف إلى الموكل تعود حقوق العقد إلى الموكل ويكون الوكيل بهذه الصورة كالرسول ، مثلاً لو باع الوكيل بالبيع مال الموكل واكتفى بإضافة العقد إلى نفسه ولم يضفه إلى موكله يكون مجبوراً على تسليم المبيع إلى المشتري وله أن يطلب ويقبض الثمن من المشتري وإذا خرج للمال المشترى مستحق وضبطه بعد الحكم فيرجع المشتري على الوكيل بالبيع يعني يطلب الثمن الذي أعطاه إياه منه والوكيل بالشراء إذا لم يضف العقد إلى موكله على هذا الوجه يقبض المال الذي اشتراه، ولكن إذا كان الوكيل قد أضاف العقد إلی مؤکلہ بأن عقد البيع بقوله بعت بالوكالة عن فلان أو اشتريت لفلان فعلى هذا الحال تعود الحقوق المبينة آنفاً كلها إلى الموكل ويبقى الوكيل في حکم الرسول بهذه الصورة. (المجلة، ص: 284) جامع الفصولين (2/ 114) : الدلال إذا باع العين بنفسه بإذن مالكه ليس له أخذ الدلالية من المشتري إذ هو العاقد حقيقة وتجب الدلالية على البائع إذ قبل بأمر البائع، ولو سعى الدلال بينهما فباع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالية على البائع أو على المشتري أو عليهما بحسب العرف. درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 231) : مصارف الدلالة :- إذا باع الدلال مالاً بإذن صاحبه تؤخذ أجرة الدلالة من البائع ولا يعود البائع بشيء من ذلك على المشتري لأنه العاقد حقيقةً، وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له، أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ثم باع صاحب المال ماله ينظر فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه، أو من المشتري أخذت منه، أو من الإثنين أخذت منهما ' انظر المادة 45…. الخ ( طحطاوي، الدر المختار، رد المحتار ) . (4)۔۔۔ ہمارے خیال میں صرف یہ بات دو طرفہ کمیشن لینے کے لیے وجۂ جواز نہیں بن سکتی؛ اس لیے کہ ایک ہی جگہ پر سامان لانے اور بیچنے کا فائدہ آڑھتی اور اصل مالک (آڑھتی جس کا ایجنٹ ہوتا ہے) کو ہی پہنچتا ہے، انہوں نے ہی اپنا سامان بیچنے کے لیے پیش کیا ہے۔ وہ مشتری کو سامان کے علاوہ کوئی ایسی چیز یا خدمت (سروس) فراہم نہیں کرتے جس کی وجہ سے مشتری سے اجرت اور کمیشن لینے کو جائز کہا جاسکے۔ فقہ البیوع (1/135.36) حکم أخذ عوض علی دفتر الشروط فی المناقصة: والمعمول بہ فی المناقصات عموماً، وفی المزایدات فی بعض الأحوال ، أن الجھة الإداریة التی ترید أن تجری المناقصة تسجل تفاصیل العقد ومواصفاتہ فی دفتر. فالسؤال الفقہی: ھل یجوز للجھة الإداریة أخذ عوض مقابل دفتر الشروط؟ فإذا نظرنا إلی أن ھذا الدفتر إنما یرجع نفعہ إلی الجھة الإداریة، حیث إنھا ھی التی ترید أن تجری المناقصة لصالحھا، لم یکن ھناك مبرر لھا فی أخذ عوض مقابل ھذا الدفتر. ولکن ھناك ناحیةً أخری لایمکن غض النظر عنھا، وھی أن إعداد دفتر الشروط ربما یحتاج إلی دراسات فنیة، ورسم خرائط دقیقة، مما یتطلب جھداً ومالاً . ومن ناحیة أخری: إن ھذا الدفتر یخفف مؤونة المقاولین أوالتجار؛ لانہ لولا ھذا الدفتر لاحتاج کل عارض إلی أن یجری ھذہ الدراسات الفنیة بنفسہ، ویتکبد فی ذلك جھداً، ویبذل لأجلہ مالاً. ومن ھذہ الجھة یبدو أن الجھة الإداریة تستحق أن تطالب عوضاً مقابل ھذا الدفتر. والذی یظھر لھذا الضعیف –عفا اللہ عنہ – أنہ لو کان دفتر الشروط لا یتضمن دراساتٍ فنیةً، وکان مشتملاً علی مجرد شرط العقد، فلا یجوز للجھة الإداریة أن تتقاضی علیہ ثمناً؛ لأنہ بمنزلة شروط العقد من أحد العاقدین، ولا یجوز أخذ العوض علی ذلك. أما إذا کان ھذا الدفتر مشتملاً علی دراساتٍ فنیةٍ یحتاج إلیھا المشارکون فی المناقصة لإعداد عروضھم، فیجوز للجھة الإداریة أن تأخذ علی دفعہ عوضاً یغطِّی تکالیف الجھة الإداریة فی إعدادہ.

عبداللہ ولی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

29/11/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے