کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیانِ عظام و علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب مرحوم نے مجھے بوجہ معذوری اور چھوٹا ہونے کے اپنی زرعی زمین جوکہ کل ستائیس ایکڑ اور پچیس گھونٹے تھی، میں سے تمام بھائیوں اور بہن کی رضامندی سے دس ایکڑ اور اڑتیس گھونٹے بطور تحفہ دی تھی۔ اس کے علاوہ جو زمین ہے وہ آج تک والد صاحب مرحوم کے ہی نام ہےاور کسی بھی بھائی اور بہن کے نام نہیں کی اور ان کا انتقال ہوگیا ہے ۔
اب والد مرحوم کے ترکہ میں تقریباً 16 ایکڑ اور 25 گھونٹے ہیں، کیا اس میں میرا حصہ ہوگاکہ نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ، آپ کی عین نوازش ہوگی۔نام کی گئی زرعی زمین کے ثبوت کی کاپی بھی منسلک ہے۔
نوٹ: سائل سے فون پر رابطہ ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ والد صاحب نے اپنی زندگی ہی میں کاغذات میرے نام پر کرادیئے تھے اور نام کی گئی زمین بھی الگ کر کے دی تھی، جس میں میں اپنی کاشت کرتا ہوں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب کوئی شخص فوت ہوتاہے تو اس کا مال میراث بنتا ہے اور شریعت کے متعین کردہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوتا ہے۔زندگی میں جب کوئی شخص کسی کو کچھ دیتا ہے تووہ ہدیہ ہوتا ہے۔
لہذا پوچھے گئے سوال میں والد کی طرف سے کل ستائیس ایکڑ اور پچیس گھونٹے میں سے دس ایکڑ اور اڑتیس گھونٹے بطور تحفہ دی تھی وہ آپ کی ملکیت ہیں، اس کے علاوہ جو 16 ایکڑ اور 25 گھونٹے ہیں ، اس میں سے تجہیزوتکفین اور دیون چکانے کے بعد جو کچھ بچا ہے تواس میں سےآپ سمیت تمام ورثاء کا شریعت کے متعین کردہ حصوں کے مطابق حصہ ہوگا۔
حوالہ جات
" (هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا)"
(الدر المختار :5/ 687)
" (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،"
(الدر المختار :5/ 690)
لأن الترکۃ فی الاصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.
(رد المحتار: 6/ 759)