021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تعدادِ طلاق میں میاں بیوی کا اختلاف
60499طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد سہیل اخترولد علی احمد نے اپنی بیوی "سائرہ" کو گھریلو ناچاقی کی وجہ سے شدید غصہ کی حالت میں موبائل پر میسج کیاکہ "میں تم کو فیصلہ دیتاہوں ،میں تم کو طلاق دیتاہوں ، طلاق دیتاہوں "اورعورت کا بیان ہے کہ خاوند نے فیصلہ کالفظ ایک دفعہ اورطلاق کالفظ دو فعہ نہیں بلکہ تین مرتبہ لکھاہے ،اب میسج بھی مٹ چکاہےاورعورت کے پاس گواہ بھی نہیں ہے تو کیا طلاق واقع ہوگئی یانہیں ؟اگر واقع ہوگئی تو کتنی واقع ہوئی ؟فیصلے کے لفظ سے مراد طلاق نہیں تھی بلکہ اگلے جملوں میں طلاق کی نیت تھی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرواقعۃً مسئولہ صورت میں پہلے لفظ "میں فیصلہ دیتاہوں"سے شوہرکی مرادطلاق نہیں تھی جیسے کہ اس نے لکھااورفون پر بتایا تو پھر اگلے دو لفظوں سے تو دوطلاقیں توبہرحال واقع ہوگئیں ،تیسرے کے بارے میاں بیوی کا اختلاف ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جب طلاق کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوتی ہے، البتہ اگر عورت گواہ پیش کردے تو پھر عورت کی بات کا اعتبار کیا جائے گا ،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بیوی کے پاس گواہ ہیں تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا ورنہ سائل(شوہر) کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، لیکن اگر مذکورہ خاتون اپنے کانوں سے تین طلاق سننے یاتحریرمیں دیکھنےکا دعویٰ کررہی ہے تو پھر اس کے حق میں طلاق واقع ہو گئی ہے اگرچہ شوہرقسم کھانے کیلئے تیار بھی ہو،کیونکہ عورت اس معاملہ میں قاضی کی طرح ہے اور اس کے حق میں احتیاطاً تین طلاق کے وقوع کا حکم لگے گااور اب اس کے لئے شوہر کواپنے اوپر تمکین(قدرت ) دینا جائز نہیں ۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار (۳۵۶/۳): ( فإن اختلفا في وجود الشرط ) ۔۔۔ ( فالقول له مع اليمين ) لإنكاره الطلاق۔۔۔ ( إلا إذا برهنت )۔وفی الرد تحتہ: قوله ( إلا إذا برهنت ) وكذا لو برهن غيرها. وفی الشامیۃ (۳۵۶/۳): ( قوله في وجود الشرط ) أي أصلا أو تحققا كما في شرح المجمع : أي اختلفا في وجود أصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق وفي البزازية : ادعى الاستثناء أو الشرط فالقول له ۔۔۔ قوله ( قالقول له ) أي إذا لم يعلم وجوده إلا منها ففيه القول لها في حق نفسها. وفی الشامیۃ (۲۵۱/۳): والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه والفتوى على أنه ليس لها قتله ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب الخ. وفى حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 420) ( سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها ) إلا بقتله ( لها قتله ) بدواء خوف القصاص ، ولا تقتل نفسها.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب