021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موٹرسائیکل عاریہ پردینا
62980امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میں طالب علم ہوں اورآپ سےایک مسئلہ عرض کرناچاہتاہوں وہ یہ ہےکہ میرےکلاس کےساتھی نےگھرجانےکےلیےمجھ سے موٹرسائیکل مانگا اورکہاکہ کل صبح گھر سے واپسی پرواپس کردوں گا۔میں نےاس کوگھرجانے کےلیے موٹرسائیکل دیدی، لیکن اس نےصبح کوواپس نہیں کی اورکہاکہ بھائی کاکچھ ضروری کام تھاوہ لے کر چلے گئے ہیں ، دوسرےدن اس نےمجھےواپس کی توموٹرسائیکل کااگلاوہیل ٹیڑھاتھا اور ٹینکی بھی اندرکی طرف دبی ہوئی تھی ۔میں نےاس کوکہاکہ کچھ پیسےتم دیدواورکچھ میں اپنی طرف سےملاتاہوں تاکہ یہ ٹھیک کردوں ،لیکن اس نےکہاکہ میں نےاستعمال کے لیےلی تھی،اوربھائی نےبھی جان بوجھ کرنقصان تونہیں کیااورمجھ سےیہ بھی کہاکہ ہم نےپڑھا ہےکہ استعمال کی چیزاگربغیرقصدکے خراب ہوجائےتواستعمال کرنےوالے پر تاوان نہیں آتا۔مفتی صاحب کیا میں اس سےپیسےمانگ سکتاہوں یانہیں؟ جواب تنقیح:میرےدوست کاکہناہےکہ میرابھائی صبح کےوقت موٹرسائیکل لےکرگیاتھالیکن جب گھرواپس آرہا تھاتوراستےمیں رکشےکےساتھ گاڑی لگی تھی اوراس میں قصوررکشے والےکاتھا، کیونکہ وہ غلط سائیڈ سےآرہاتھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عاریۃًٍ دی گئی چیزامانت ہوتی ہے۔اگربغیرغفلت کےنقصان ہوجائےتواس کاوہ ذمہ دارنہیں ہوتا، لیکن آپ کی اس طالب کواجازت خاص اس کےلیےاوراگلی صبح تک تھی،لہذااس کےبعداس کے بجائےبھائی کےچلانے سے جوبھی نقصان ہواہے،وہ اس کاذمہ دارہے،آپ اس سےوصول کرسکتے ہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ علی المرغینانی رحمہ اللہ:وله أن يعيره إذا كان مما لا يختلف باختلاف المستعمل . ... وإنما لا تجوز فيما يختلف باختلاف المستعمل دفعا لمزيد الضرر عن المعير؛ لأنه رضي باستعماله لا باستعمال غيره.قال رضي الله عنه: وهذا إذا صدرت الإعارة مطلقة. وهي على أربعة أوجه:أحدها: أن تكون مطلقة في الوقت والانتفاع ،وللمستعير فيه أن ينتفع به أي نوع شاء في أي وقت شاء ؛عملا بالإطلاق.والثاني: أن تكون مقيدة فيهما ،وليس له أن يجاوز فيه ما سماه عملا بالتقييد، إلا إذا كان خلافا إلى مثل ذلك أو إلى خير منه .... والثالث: أن تكون مقيدة في حق الوقت مطلقة في حق الانتفاع.والرابع: عكسه. وليس له أن يتعدى ما سماه.فلو استعار دابة ، ولم يسم شيئا ،له أن يحمل ويعير غيره للحمل؛ لأن الحمل لا يتفاوت. وله أن يركب ،ويركب غيره وإن كان الركوب مختلفا؛ لأنه لما أطلق فيه فله أن يعين، حتى لو ركب بنفسه، ليس له أن يركب غيره؛ لأنه تعين ركوبه، ولو أركب غيره ليس له أن يركبه حتى لو فعله ضمنه؛ لأنه تعين الإركاب. (الهداية:3/ 220) قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:لو استعار دابة للركوب أو ثوبا للبس له أن يعيرهما، ويكون ذلك تعيينا للراكب واللابس، فإن ركب هو بعد ذلك قال الإمام علي البزدوي: يكون ضامنا، وقال السرخسي وخواهر زاده: لا يضمن، كذا في فتاوى قاضي خان .وصحح الأول في الكافي، بحر. قوله: (وإن اختلف): أي إن عين منتفعا، واختلف استعماله، لا يعير للتفاوت. قالوا: الركوب واللبس مما اختلف استعماله، والحمل على الدابة والاستخدام والسكنى مما لا يختلف استعماله. (رد المحتارعلی الدر المختار 5/ 680)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب