021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آن لائن گیم کھیلنا اوراس پر انعام وصول کرنے کاحکم
60683جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

اگرکوئی شخص آنلائن کوئی گیم کھیلے جیسے "لڈو" یا "پوکر" وغیرہ اور اس میں جیتنے پر فرضی رقم سکوں یا فرضی سونے کی صورت میں جمع ہواورایک خاص مقدار تک پہنچنے کے بعد اس فرضی رقم کو اصلی رقم میں کیش کروایا جاسکتاہو توآیا اس رقم کو کیش کروانا اوراس کا استعمال کرنا جائز ہےیا ناجائز ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل کی زبانی ذکرکردہ وضاحت کی روشنی میں یورپ میں دوتین مہینوں سے ایسے کھیل مارکیٹ میں آگئے ہیں جس پر کھیلنے والے کو انعام ملتاہےبشرطیکہ کھیلنے والےکے جیتنےوالے فرضی کوائین ایک خاص مقدارکو پہنچے،جیسے کہ لڈو سٹار اورپورکروغیرہ ،نیز سائل کی وضاحت کی روشنی میں یہاں چار فریق ہوتے ہیں: نمبرایک اشتہاردینے والی کمپنی ،نمبردو اشتہارلینے اوراس کو اپنی ویب سائٹ یا اپنے سے متعلق ویب سائٹ پر لگوانے والی کمپنی،نمبرتین ایپس مثلاً کھیل بنانے والاشخص جس کے بنائے ہوئے کھیل کو ویب سائٹ پر رکھ کراس کے آگ پیچھے اورسائٹ پر اشتہاردیادیا جاناہے،اورنمبر چار کھیلنے والا شخص۔ ان میں سے ہرایک کا مقصد الگ ہے، اشتہاردینےوالے کا مقصداپنی مصنوعات کی تشہیرہے ،اشتہار وصول کرنے والی کمپنی کا مقصد اپنے ویب سائٹ کا کرایہ لینا ہے، ایپس مثلاًکھیل بنانے والے کا مقصد اپنے ایپس کے استعمال کی اجرت لینا ہے اورکھیلنے والے کا مقصد کھیل کر انعام یااجرت وصول کرناہےاوریہ تمام اجرتیں بالاخر اشتہار دینے والی کمپنی دیتی ہے ،سوال چونکہ صرف کھیل کھیلنے والے کی اجرت یا انعام سے متعلق ہے، لہذا ہم صرف اسی فریق کا ذیل میں حکم بیان کریں گے باقی تین فریقوں کا حکم بیان کرنا ہمارامقصد نہیں ہے۔ مذکورہ اجرت یا انعام چونکہ ایک ایسے فریق کی طرف سے دیاجارہاہے جس کا مقصد اشتہار کی تشہیر اوراس کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاناہے، اس لیے اگر کھیل کھیلنے والااس کا ذریعہ بن رہاہے تو اس کو اس کی اجرت لینا اور جیتنے والے فرضی سکوں یا سونےکو کیش کراناشرعاً درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔ ا۔کھیل کےاندراوراس کے آگے پیچھےاورسائٹ پر چلائے جانےوالے اشتہارات عورتوں کی تصاویر،میوزک ،گھانے یاکسی اور قسم کے فحش مواد یا ناجائز امور پرمشتمل نہ ہوں۔ 2۔ کھیل کے اندراوراس کے آگے پیچھےاورسائٹ پر چلائے جانےوالے اشتہارات دینے والی کمپنیوں کا بنیادی کام حلال ہو،ناجائز اورحرام نہ ہو۔ 3۔اگرآپ نے ویب سائٹ پر اشتہاررکھنے والے کمپنی سے کوئی معاہدہ کیاہے اوراس معاہدہ میں کوئی جائز شرائط کا ذکرتھاتو ان کو پورا کیاجائے ،ان کی مخالفت نہ کی جائے۔ واضح رہے کہ ان فرضی سکوں یا سونےکو کیش کرانا مذکورہ بالا شرائط کےساتھ شرعاً اگرچہ فی نفسہ جائزہے ،مگر سوچنے کی بات یہ ہےکہ معمولی کھیل کھیلنے سے یہ فرضی سکے کیش کی حدتک نہیں پہنچتے، بلکہ اچھا خاصا وقت اس میں برباد کرنے کے بعدکہیں جاکر یہ فرضی سکے کیش کی حد تک جاپہنچتے ہیں، اس میں وقت جیسا قیمتی اثاثہ کو بے جاضائع کرناہے ، ایک مسلمان کی شایانِ شان یہ نہیں ہوتا کہ وہ وقت کو ضائع کرتاپھرےاوراس طرح کے بے مقصد کھیل کھیلے، لہذاہرمسلمان کو چاہیے کہ اس طرح کے کھیلوں سے اپنے آپ کو بچائے اوربامقصدکھیل کھیلے آنلائن گیموں میں ضیاعِ وقت کے علاوہ درج ذیل مفاسد بھی ہیں : اوّل:… اس کھیل میں دِینی اور جسمانی کوئی فائدہ مقصود نہیں ہوتا دوم:… اس میں دین اور دنیوی فرائض سے انسان غافل ہوجاتا ہے اور گھنٹوں اس میں برباد کردیتا ہے ۔ سوم:… سب سے شدید ضرر یہ ہے کہ اس کھیل کی عادت پڑنے پر چھوڑنا دُشوار ہوتا ہے۔ چہارم:… بعض گیم ناجائز تصاویر اور فوٹوز پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ پنجم:… اس سے بچوں کا ذہن خراب ہوتا ہے اور اس سے بامقصد تعلیم میں خلل واقع ہوتا ہے، پھر بچوں کو پڑھائی اور دُوسرے فائدے والے کاموں میں دِلچسپی نہیں رہتی، وغیرہ وغیرہ۔ اس کھیل سے کھیلنےوالے کو اگرچہ وقتی طورپردِلی فرحت اور لذّت حاصل ہوتی ہے، تاہم اس کے مفاسدکہیں زیادہ ہے ،لہذا یہ کراہت سے خالی نہیں ، جیسا کہ فقہاء نے شطرنج کو مکروہ قرار دیا ہے ،۔ ’’و کرہ تحریما اللعب بالنرد و کذا الشطرنج ،تاہم اگرئی بیمارہے اورڈاکٹر نے اس کے لیے یہ کھیل تجویز کیاہے جیسےکہ بعض نفسیاتی بیماریوںمیں ڈاکٹراس طرح کے کھیل تجویزکرتے ہیں تاکہ کھیلنے والے کا ذہن مشغول رہے اوراپنی بیماری سےاس کی توجہ ہٹے یاکوئی ٹھوڑی دیر کےلیے اسے کھیلتاہے اورمذکورہ با مفاسد سے مکمل اجتناب کرتاہے تو اس کے حق میں یہ گیم فی نفسہ جائز ہوگا ۔
حوالہ جات
وفی مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 549) (وإن شرط فيها) أي في المسابقة (جعل من إحدى الجانبين) مثل أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا وإن سبقتك لا آخذ منك شيئا (أو) شرط فيها جعل (من ثالث لأسبقهما) مثل أن يقول ثالث للمتسابقين أيكما سبق له علي كذا (جاز) لأنه تحريض على آلة الحرب والجهاد لقوله - عليه الصلاة والسلام - «المؤمنون عند شروطهم» .وفي القياس لا يجوز لأنه تعليق المال بالحظر وعند الأئمة الثلاثة لا يجوز في الأقدام.(وإن) شرط (من كلا الجانبين يحرم) بأن يقول إن سبق فرسك أعطيتك كذا وإن سبق فرسي فأعطني كذا لأنه يصير قمارا والقمار حرام (إلا أن يكون بينهما) فرس (محلل كفء لهما) أي لفرسيهما يتوهم أنه يسبقهما (إن سبقهما أخذ) الجعل (منهما وإن سبقاه لا يعطيهما) شيئا أو بالعكس يعني شرط أيهما لو سبقاه يعطيهما ولو سبقهما لا يأخذ شيئا منهما كما في التسهيل (وفيما بينهما أيهما سبق أخذ) المال المشروط (من الآخر) لأن بالمحلل خرج من أن يكون قمارا فيجوز وإن لم يكن الفرس المحلل مثلهما لم يجز لأنه لا فائدة في إدخاله بينهما فلم يخرج حينئذ من أن يكون قمارا. (وعلى هذا لو اختلف) عالمان (اثنان في مسألة وأرادا الرجوع إلى شيخ) فاضل (وجعلا على ذلك جعلا) قال في المنح لو وقع الاختلاف بين اثنين وشرط أحدهما لصاحبه أنه إن كان الجواب كما قلت أعطيتك كذا وإن كان كما قلت لا آخذ منك شيئا فهذا جائز لأنه لما جاز في الأفراس لمعنى يرجع إلى الجهاد يجوز هنا للحث على الجهد في طلب العلم لأن الدين يقوم بالعلم كما يقوم بالجهاد. ملتقى الأبحر (ص: 216) وإن شرط فيها جعل من إحدى الجانبين أو ثالث لأسبقهما جاز ومن كلا الجانبين يحرم، إلا أن يكون بينهما محلل كفى لهما إن سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لا يعطيهما، وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من الآخر وعلى هذا لو اختلف اثنان في مسألة وأرادا الرجوع إلى شيخ وجعلا على ذلك جعلا. وفی التفسير الميسر (1/ 411) ومن الناس مَن يشتري لَهْو الحديث -وهو كل ما يُلهي عن طاعة الله ويصد عن مرضاته. زاد المسير في علم التفسير (3/ 430) (ومن الناس مَن يشتري لَهْو الحديث ) وفي المراد بلهو الحديث أربعة أقوال:..... والثاني: أنه ما ألهى عن الله تعالى: قاله الحسن، ..... وإِنما قيل لهذه الأشياء: لهو الحديث، لأنها تُلهي عن ذِكْر الله تعالى. مسند الشهاب القضاعي (1/ 393) عن الزهري، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «روحوا القلوب ساعة بساعة» مصنف ابن أبي شيبة (7/ 177) عن قسامة بن زهير قال: «روحوا القلوب تعي الذكر» فيض القدير (4/ 40) (روحوا القلوب ساعة فساعة) وفي رواية ساعة وساعة أي أريحوها بعض الأوقات من مكابدة العبادات بمباح لا عقاب فيه ولا ثواب قال أبو الدرداء: إني لأجم فؤادي ببعض الباطل أي اللهو الجائز لأنشط للحق وذكر [ص:41] عند المصطفى صلى الله عليه وسلم القرآن والشعر فجاء أبو بكر فقال: أقراءة وشعر فقال: نعم ساعة هذا وساعة ذاك وقال علي كرم الله وجهه: أجموا هذه القلوب فإنها تمل كما تمل الأبدان أي تكل وقال بعضهم: إنما ذكر المصطفى صلى الله عليه وسلم لأولئك الأكابر الذين استولت هموم الآخرة على قلوبهم فخشي عليها أن تحترق. وفی تکملۃ فتح الملھم (4/ 434 باب تحریم نرد شیر) وحاصل الکلام :ترویح القلب وتفریحہ وکذا تمیرین البدن من الارتفاقات المباحۃ والمصالح البشریۃ التی التی لاتمنعھا الشرعیۃ السمحۃ برأسھا نعم تمنع الغلو والانھماک فیھا بحیث یضر بالمعاش اوا المعاد . وفی تکملۃ فتح الملھم (4/ 435 وعلی ھذا الاصل فالالعاب التی یقصد بھا ریاضۃ الأبدان أو لأذھان جائزۃ فی نفسھا مالم تشتمل علی معصیۃ أخری ومالم یؤد الانھماک فیھا الی الإخلال بواجب الإنسان فی دینہ ودنیاہ.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب