السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سنت کے مطابق شادی کا مکمل طریقہ یعنی رشتہ کرنے(بندھن ) سے لے کر ولیمہ تک ، بیان کریں۔
اگر ہمارے رشتہ دار اپنی شادیوں میں آج کی رسوم ورواج کو اپناتے ہیں تو دین اسلام کا کیا فیصلہ ہے کہ ہمیں ان کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے؟ جبکہ ہمارا گھرانہ بھی دین دار کہلواتا ہے،تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نکاح ایک سنت عمل ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس مبارک عمل کو سنت کے مطابق انجام دیا جائے، لہذا ذیل میں اس طریقہ کو بیان کیا جارہا ہے:
1۔ نیک بیوی کا انتخاب:
رشتہ ازدواج کا پہلا زینہ شریکِ زندگی کا انتخاب ہے، جوکہ بہت ہی سخت اور کٹھن مرحلہ ہے۔بیوی کے انتخاب کے وقت درج ذیل صفا ت کا دیکھنا ضروری ہے:
(1) دین داری: کسی بھی عور ت سے نکاح کے وقت اس میں سب سے پہلی خوبی دین داری کو ڈھونڈنا چاہیئے، اگر وہ دین دار ہوگی تو ازدواجی زندگی پائیدار اور خوش گوار ہوگی،اور نئی آنے والی نسل بھی دین دار ہوگی۔حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
"تنکح المرءۃ لاربع لمالھاولحسبھا ولجمالھاولدینھافاظفر بذات الدین تربت یداک" (مشکوۃ:حدیث نمبر 2941)
ترجمہ: " کسی عورت سے چار چیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے۔ لیکن دیکھو! تم دین دارعورت سے نکاح کرنا۔"
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" تخیرو ا لنطفکم وانکحوا الاکفاء"(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح:142)
ترجمہ: "اپنی اولاد کے لیے اچھی عورت کا انتخاب کرو اور کفو( ہم پلہ لوگوں ) میں شادی کرو۔"
(2) دین داری کے بعد ، جس عورت سے نکا ح کرنا ہے ،ا س کے گھر کا ماحول، اس کے خاندان اور اس کے آباؤ اجداد کو دیکھنا چاہیئے۔
(3) حسن و جمال: دین داری اورحسب و نسب کے بعد حسن و جمال بھی ہونے والی بیوی میں دیکھنا اہم ہے۔ رفیقہ حیات کے انتخاب میں حکمت و بصیرت کے ساتھ اطمینان و سکون سے فیصلہ کرنا چاہیئے۔
(4) مال داری: چوتھی چیز مال ہے جس کا حدیث مبارک میں ذکر آیا ہے۔
لیکن اگر کسی جگہ یہ چاروں صفات جمع نہیں ہوپاتے تو پھر دین داری کی صفت کو بہر حال ترجیح دینی چاہیئے۔
2۔ خُطبہ نکاح کا پیغام:
پیغام نکاح منظور ہونے پر غیر ضروری تاخیر کےبغیر نکاح کا اقدام کرنا چاہیئے۔
3۔ حق مہر:
بیویوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق "مہر " ہے جو شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے۔ مہر دراصل ایک اعزازیہ ہے جو ایک شوہر اپنی بیوی کو پیش کرتا ہے اور اس کا مقصد عورت کا اعزاز واکرام ہے۔ شریعت کا تقاضا ہے کہ مہر کی رقم نہ تو اتنی کم رکھی جائے جس میں اعزاز و اکرام بالکل مفقود ہو اور نہ اتنی زیادہ رکھی جائےکہ شوہر اسے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور بالآ خر یا تو مہر ادا کئے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائےیا آخر میں بیوی سے معاف کرانے پر مجبور ہو۔
شرعی نقطہ نظر سے ہر عورت کا اصل حق یہ ہے کہ اسے "مہر مثل" ادا کیا جائے۔ "مہر مثل" کا مطلب مہر کی وہ مقدار ہے جو اس عورت کے والد کی طرف سے خاندان میں عام طور سے اس جیسی خواتین کے نکاح کے وقت مقرر کی جاتی رہی رہو۔لیکن یہاں بھی شریعت نے زیا دہ سے زیادہ مہر کی تو کوئی حد مقرر نہیں کی ، البتہ کم سے کم مہر کی حد مقرر کردی ہے اور وہ حد دس درہم ہے۔ دس درہم کا مطلب دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے، جو تقریبا 31 گرام کے برابر بنتی ہے۔
4۔ مسنون ولیمہ:
ولیمہ کرنا سنت عمل ہےلیکن ضروری ہے کہ اپنی وسعت کے مطابق موجود لوگوں کو بلایا اور اس میں زیادہ غلو سے کام نہ لیا جائے۔راجح قول کے مطابق ولیمہ کامسنون وقت دخول یا خلوت صحیحہ کے بعد ہے۔
5155 - حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد هو ابن زيد، عن ثابت، عن أنس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى على عبد الرحمن بن عوف أثر صفرة، قال: «ما هذا؟» قال: إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب، قال: «بارك الله لك، أولم ولو بشاة»
(صحيح البخاري: 7/ 21)
مختلف قسم کی رسومات کا حکم:
شادی میں مختلف ایسے رسومات انجام دیئے جاتے ہیں جن کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس حولے سے اپنے رشتہ داروں کو حکمت کے ساتھ نرمی سے سمجھائیں، اور سمجھانے کے عمل کو مسلسل جاری رکھیں، اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کی تقریبات میں جانا چھوڑدیں۔
نوٹ: اگر شادی سے متعلق مزید تفصیلات درکار ہیں تو درج ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہے:
• تحفۃ الزوجین ۔۔۔۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
• اسلامی شادی۔۔۔۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
• اصلاحِ خواتین۔۔۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
• اسلام اور تربیت اولاد۔۔ حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ
• اسلامی شادی۔۔۔۔ حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ
• اسلامی دلہن۔۔۔۔ مولانا نصیرحسین نقشبندی غفوری
• تحفہء خواتین۔۔۔۔ حضرت مولاناعاشق الہی رحمہ اللہ
• تحفہ دلہن۔۔۔ حضرت مولانا محمد حنیف عبدالمجید صاحب
• تحفہء دولہا۔۔۔ حضرت مولانا محمد حنیف عبدالمجید صاحب