021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ذہنی مریض کی حالتِ مرض کی طلاق کا حکم
60845طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

عرصہ چھ ماہ پہلے میرارشتہ میری مرضی اورپسندسے ہوا، لیکن رخصتی کے بعدمیرے دل ودماغ پر کچھ اثرات رونماہونے لگے،سخت ذھنی دباؤ رہتاتھا،بعض اوقات تو حالت ایسی ہوجاتی تھی کہ اپنے قول وفعل کا پتہ بھی نہیں چلتاتھا،ایسے ہی ایک موقع پر میں نے اپنی بیوی کو مخاطب کرکے کہاکہ طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے ،جس وقت میں نے یہ بولاتھامیں قسم اٹھاکر کہہ رہاہوں کہ مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہاتھا،میری بیوی بھی یہ سن کرپریشان ہوئی،کیونکہ ہمارے درمیان کوئی ناچاقی اورلڑائی جھگڑا بھی نہیں تھا اورنہ ہی میرا طلاق دینے کا کوئی ارادہ تھا،اس عمل کے بعد ڈاکٹر سے معائنہ کرانے کے بعد پتہ چلاکہ مجھے ذھنی کمزوری ہے اورایک عامل نے بھی بتایاکہ اس پر جادو ہوا ہے اس کے اثرات ہیں، اب مفتی صاحب شریعت کی روشنی میں مجھے تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں،میرے والد صاحب بھی میرےاس حال پر گواہ ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرآپ کی مذکورہ کیفیت جس میں بقول آپ کے آپ کواپنے قول اورفعل کا پتہ نہیں چلتا پہلے سے لوگوں میں مشہورتھی اورآپ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ بوقتِ طلاق آپ پر یہی کیفیت طاری تھی تو پھر آپ کی طلاق نہیں ہوئی ،اوراگرآپ کی مذکورہ کیفیت پہلے سے لوگوں میں معروف نہیں تھی تو اگردومعتبرمرد یا ایک معتبرمرد اور دومعتبرعورتیں یہ شہادت دیں کہ بوقتِ طلاق آپ کی مذکورہ کیفیت تھی تو پھر بھی طلاق نہیں ہوگی اور اگرآپ کی مذکورہ کیفیت پہلے سے لوگوں میں معروف نہیں تھی اوربوقتِ طلاق اس کیفیت کے طاری ہونے پر دومعتبرگواہ بھی نہیں تو پھر تین طلاقیں واقع ہوگئیں ہیں،اوربیوی آپ پر حرام ہوگئی ہے۔
حوالہ جات
وفی حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 244) وسئل نظما فيمن طلق زوجته ثلاثا في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظما أيضا بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرة يصدق بلا برهان. وفی العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 38) الدهش هو ذهاب العقل من ذهل أو وله وقد صرح في التنوير والتتارخانية وغيرهما بعدم وقوع طلاق المدهوش فعلى هذا حيث حصل للرجل دهش زال به عقله وصار لا شعور له لا يقع طلاقه والقول قوله بيمينه إن عرف منه الدهش وإن لم يعرف منه لا يقبل قوله قضاء إلا ببينة كما صرح بذلك علماء الحنفية رحمهم الله تعالى.(وراجع ایضاً احسن الفتاوی 5/162) وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 244) يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل. وفی الھندیۃ(2/368) فلا یقعُ طلاقُ الصبی وان کان یعقلُ والمجنونِ (الٰی قولہ) اما فی حالَتِہٖ الافَاقیَۃِ فالصحیحُ أنہ واقعٌ ہکذا فی الجَوہَرۃِ النیّرَۃِ . الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 641) (قوله ومجنون) أي في حال جنونه، حتى لو كان يجن ويفيق فأعتق في حال إفاقته يصح.(وقال فی (3/ 474) فمن يفيق يجوز في حال إفاقته. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 144) وجعله الزيلعي في حال إفاقته كالعاقل والمتبادر منه أنه كالعاقل البالغ، وبه اعترض الشرنبلالي على الدرر، فلا تتوقف تصرفاته ووفق بينهما الرحمتي والسائحاني بحمل ما هنا على ما إذا لم يكن تام العقل في حال إفاقته. وما ذكره الزيلعي على ما إذا كان تام العقل. وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار4/ 224) وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس قال: يعني المغلوب في عقله، وعن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم يتكلم بغير نظام كذا في المغرب(وکذافی البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق (5/ 51).
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب