021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حاجتِ اصلیہ سے کیا مراد ہے؟
60968 قربانی کا بیانوجوب قربانی کانصاب

سوال

ضرورت سے زائد چیزوں میں کون کونسی چیزیں شمار ہوتی ہیں؟ بعض لوگ تین جوڑے کپڑوں سے زائد ضرورت سے زائد بتاتے ہیں، جبکہ آج کل کے فضائی آلودگی والے ماحول میں تو ایک سوٹ ایک دن ہی نکالتا ہے تو تین سوٹوں کے ساتھ گزارہ کرنا ناممکن ہے۔ اسی طرح گھروں میں برتن بھی خوب ہوتے ہیں جوکہ مہمانوں کی آمد پر استعمال ہوتے ہیں، ویسے بھی پڑے رہتے ہیں، غرض اس مسئلہ میں تفصیل درکار ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہاءکرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے حاجتِ اصلیہ کی جو تعریف کی ہے اس سے یہ اصولی بات واضح ہوتی ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو ہلاکت سے بچاتی ہے خواہ حقیقۃً ہلاکت سے بچائے یا تقدیراً ہلاکت سے بچائے وہ حوائجِ اصلیہ میں شامل ہے، مثلًا کھانا، پینا انسان کو حقیقۃً ہلاکت یعنی موت سے بچاتا ہے اور قرض کی ادائیگی سے انسان تقدیری ہلاکت یعنی رسوائی ا ورقید وغیرہ سے بچتا ہے۔ اور فقہاء ِ کرام نے حوائجِ اصلیہ کی جو مثالیں دی ہیں وہ اپنے زمانے کے حالات کے پیشِ نظر دی ہیں، حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی نوعیت اور مقدار میں تبدیلی آئے گی ۔ مذکورہ بالا اصول کے پیشِ نظر فقہائے کرام کی عبارات میں جن اشیاء کو حوائجِ اصلیہ میں شامل کیا گیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہیں: (۱)رہائشی مکان (۲)پہننے کے کپڑے (۳) روزمرہ استعمال میں آنے والا گھریلو سامان (۴) سواری (۵)خدمت گار(۶)ہتھیار جو اپنے استعمال میں ہیں(۷)اپنے اہل و عیال کے لئے رکھی گئی اشیاءِ خوراک(۸)اہلِ علم کے لئے دینی کتب (9)پیشہ والوں کے لئے اپنے آلات اور آلاتِ مزدوری وغیرہ ۔ البتہ حالات کی تبدیلی کی صورت میں چیزوں کی نوعیت اور تعداد میں فرق آسکتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہننے کے کپڑوں میں حاجتِ اصلیہ کے لیے جوڑوں کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں ہے، بلکہ گرمی اور سردی کے جتنے جوڑے استعمال میں ہوں، ویسے زائد پڑے ہوئے نہ ہوں تو وہ حاجتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔ اسی طرح جو برتن سال میں کم از کم ایک دفعہ استعمال میں آتے ہوں وہ بھی حاجتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار (2/ 262): وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه. رد المحتار (2/ 262): قوله ( وفسره ابن ملك ) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقاً كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديراً كالدين؛ فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعاً عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك. الفتاوى الهندية (1/ 172): ومنها فراغ المال عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة وكذا طعام أهله وما يتجمل به من الأواني إذا لم يكن من الذهب والفضة ….. وكذا كتب العلم إن كان من أهله وآلات المحترفين كذا في السراج الوهاج.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب