021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سسرالی رشتہ میں جانبین سے دیئے جانے والے تحائف کا حکم
61253نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

سسرالی رشتہ دارآپس میں ایک دوسرےکو (یعنی لڑکی والے لڑکے ولوں کو اورلڑکے والے لڑکی والے کو)جوکپڑے وغیرہ بناکردیتے ہیں اس کا لینا دیناکیسے ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شادی بیاہ اوردیگر مواقع پرسسرالی رشتہ میں جانبین سے جو تحفہ تحائف ،کپڑے وغیرہ دیئے جاتے ہیں اگر ان تحفہ تحائف کو بے جا اسراف اور شرعی حکم سمجھے بغیر دیا جائے اور مقصد ان تحفہ تحائف کے دینے سے ریاکاری اور نام ونمود بھی نہ ہو، اسی طرح ان تحفہ تحائف کے دینے کا اس قدر التزام بھی نہ ہو کہ ان کے نہ دینے والے پر ملامت کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ،البتہ مذکورہ اشیاء بطور نمود ونمائش اور بے جا اسراف سے دی جائیں تو پھر جائز نہیں، ان سے احتراز لازم ہوگا۔
حوالہ جات
وفی فتح الملھم (۴۴۷/۵): تحقیق معنی البدعۃ وتحدیدہ،وھو بحث لطیف وتحصل للعبد الضعیف عفا الله عنہ من کلمات شیوخنا وافاداتھم: أن الأصل فی البدعۃ الشرعیۃ انما ھو قول النبی ﷺ: ”من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھود“ والمراد بالأمر: الدین، کمامر، فلا یطلق الا علی الأمور المحدثۃ فی الدین، لا علی کل أمر محدث،وبھذایخرج أمثال التوسع فی المطاعم والمراکب وغیرھامن الأمورالمباحۃ بل بعض الرسوم، التی یفعل فاعلوھا لاعلی وجہ التقرب والاحتساب أیضا عن حد البدعۃ الشرعیۃ، وان کانت داخلۃ فی حد البدعۃ اللغویۃ، فان ھذہ الأفعال لایباشرھامن باشرھا ظانا وناویا أنھا من الدین، فلیست من الاحداث فی الدین فی شییٔ، وکذا قولہ ﷺ: ”ما لیس منہ“ یدل علی أن الأمور التی لھا أصل من الکتاب أو من سنتہ ﷺ أو من سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین أو تعامل عامۃ السلف رضی الله عنھم أو الاجتھاد المعتبر بشروطہ المستند الی النصوص لاتسمی محدثۃ ولابدعۃ شرعیۃ فان ھذہ الأصول کلھا فی الدین تنصیصا أو تعلیلا کماتقرر فی محلہ. وفی الشامیۃ (۱۵۳/۳): قلت ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابا ونحوها صبيحة العرس أيضا . وفیہ أیضاً(۱۵۳/۳): قوله ( لأن الظاهر يكذبه ) قال في الفتح والذي يجب اعتباره في ديارنا أن جميع ما ذكر من الحنطة واللوز والدقيق والسكر والشاة الحية وباقيها يكون القول فيها قول المرأة لأن المتعارف في ذلك كله أن يرسله هدية والظاهر معها لا معه. وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696) وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب