021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں وراثت کی تقسیم
61380میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں ١۔کیا بیٹا باپ سے اس کی زندگی میں الگ ہو کر رہ سکتا ہے؟ ۲۔اور باپ کی زندگی میں بیٹا وراثت میں سے اپنا حصہ مانگ سکتا ہے یا نہیں؟اگر مانگے تو کیا باپ پربیٹے کا حصہ دینا زندگی میں لازم ہے یا نہیں ؟وضاحت۔ ۳۔اگر باپ نے بیٹے کو دس لاکھ روپے دیے اور کہا کہ اس سے کاروبار کرو۔ اب بیٹا الگ ہونا چاہتا ہے تو اس کاروبار کا کیا کرے ۔کاروبار کی اصل رقم باپ کو واپس کرے یا موجودہ کاروبار جو نفع کے ساتھ بن چکا ہے وہ سب کا سب وہ باپ کے حوالے کر دے یا کچھ بھی نہ دے۔ان صورتوں میں کیا حکم ہو گا وضاحت مطلوب ہے۔ ۴۔ اگر باپ نے وہ کاروبار بیٹے سے نہیں لیا اور وہ بیٹا الگ ہو گیا تو آیا اس سے اس کے چھوٹے بھائی کل کو کوئی حصہ مانگ سکتے ہیں یا نہیں ان کا کوئی حصہ بنتا ہے اس میں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔اچھا سلوک رکھتے ہوئے بیٹا زندگی میں باپ سے الگ رہ سکتا ہے ۔لیکن اگر باپ ضرورت مند ہو تو ضروری اخراجات مہیا کرنا بیٹے پر واجب ہے۔ ۲۔کسی شخص کا ورثہ اس کی موت کے بعد ہی تقسیم ہو تا ہے۔ موت سے پہلے جائیداد کی تقسیم ہبہ(تحفہ) شمار ہوتا ہے۔لہذا بیٹے کو مطالبہ کا حق حاصل نہیں۔اگر مطالبہ کرے تو باپ پر لازم نہیں کہ اس کے مطالبے کو پورا کرے ۔ ۳۔اگر باپ نے یہ رقم واپس نہ لینے کی نیت سے دی تھی تو باپ بیٹے سے واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔وہ رقم اور کاروبار بیٹے کی ملکیت ہے ۔البتہ اگر رقم قرض کی نیت سے دی تھی تو والدصرف رقم واپس لینے کا حق دار ہے۔ باقی کاروبار بیٹے کا ہی رہے گا۔ ۴۔اگر والد بیٹے سے کچھ بھی واپس نہ لے تو کسی بھائی کو مطالبہ کا حق حاصل نہیں۔ایسی صورت میں باپ کو چاہیے کہ دوسری اولاد بشمول بیٹیوں کو بھی اتنی اتنی رقم یا اس کے بقدر جائیداد دے دے۔ اگر باپ کے پاس دینے کے لیے مزید رقم نہ ہو تو بیٹے کو چاہیے کہ خود سے رقم کا مناسب حصہ باپ کو واپس لوٹا دے۔
حوالہ جات
(تبيين الحقائق : 3/ 64) قال في التتارخانية ثم يفرض على الابن نفقة الأب إذا كان الأب محتاجا والابن موسرا سواء كان الأب قادرا على الكسب أو لم يكن، وذكر شمس الأئمة السرخسي في شرح أدب القاضي للخصاف أن الأب إذا كان كسوبا، والابن أيضا كسوبا يجبر الابن على الكسب ونفقة الأب، (رد المحتار:6/ 758) وأركانه: ثلاثة وارث ومورث وموروث. وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، (رد المحتار:5/ 704) فلو وهب لذي رحم محرم منه) نسبا (ولو ذميا أو مستأمنا لا يرجع) (بدائع الصنائع : 13/ 316) ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى (إن الله يأمر بالعدل والإحسان ). (بدائع الصنائع : 13/ 317) يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض . وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي عليه الصلاة والسلام فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة . (الدر المختار للحصفكي: 8/ 599) وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إذا لم يقصد به الاضرار، وإن قصده يسوي بينهم، يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى. واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب