کسی چیز کا جب کوئی جائز استعمال موجود ہوتو اس کی پیداوارحاصل کرنا اورخریدو فروخت جائز ہوتی ہے۔چونکہ افیون کا جائز استعمال موجود ہےمثلاً ادویات وغیرہ میں ،لہذا اس کی کاشت اور تجارت بھی جائز ہے۔
البتہ جس شخص کے بارے میں یقین ہو کہ وہ اسے غلط ہی استعمال کرے گا تو اس کو بیچنا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے مکروہ تحریمی و ناجائز ہے، لہذا ایسے معاملے کوفسخ کرنا واجب ہے ۔ اگر کسی وجہ سے فسخ ممکن نہ رہے تو اصل قیمت کے علاوہ صرف اس عقد میں ہونے والا نفع صدقہ کرنا واجب ہے ۔البتہ اگر اس رقم سے کوئی چیز خریدکر بیچ دی تو اس دوسرےمعاملے میں ہونے والا نفع حلال ہو گا۔
حوالہ جات
"كل ما جاز الانتفاع به جاز بيعه والبيع من الانتفاع وممن قال ذلك أبو حنيفة وأصحابه "
الإستذكار (8/ 368)
"لما جاز الانتفاع به جاز بيعه" (المعتصر من المختصر 1/ 273)
"( ويكره ) تحريما ( بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم ) لأنه إعانة على المعصية"
(رد المحتار : 16/ 397)
لأن الأصح تعينها في البيع الفاسد؛ فلو اشترى بها عبدا مثلا شراء صحيحا طاب له ما ربح؛ لأنها لاتتعين في هذا العقد الثاني لكونه عقدا صحيحا، (رد المحتار) (5/ 97)
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم