کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص فوت ہو گیا ہے اور اس کے ورثہ میں صرف ایک ماں شریک بھائی کا بیٹا ہے اور ایک حقیقی بھانجی ہے۔ازروئے شریعت اِس کا ترکہ کس طرح تقسیم ہو گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم کے ترکہ سے تجہیز و تکفین کا خرچ نکالنے کے بعد اگر ان کے ذمہ قرض وغیرہ مالی واجبات ہوں تو انہیں ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے اسے پورا کیا جائے،پھر جو ترکہ بچ جائے اس کو چار حصوں میں تقسیم کرکے خیفی بھتیجے کو ایک اور حقیقی بھانجی کو تین حصے دیئے جائیں گے۔
فیصد کے اعتبار سے خیفی بھتیجے کا حصہ ٪25 اور بھانجی کا حصہ ٪75 ہوگا۔ نقشہ درج ذیل ہے:
عند محمد(القول المفتی بہ)
مــــــــ6ـــ4ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ100ـــــــــــــ
أخ خیفی أخت عینی
1 3
ابن بنت
1 3
٪25 ٪75
حوالہ جات
قال الحصکفی رحمہ اللہ:(ثم) جزء أبويه،وهم (أولاد الأخوات) لأبوين أو لأب وأولاد الإخوة والأخوات لأم وبنات الإخوة لأبوين أو لأب وإن نزلوا.
وقال الشامی رحمہ اللہ: قوله: (ثم جزء أبويه،وهم أولاد الأخوات) :الأولاد يشمل الذكور والإناث ،وهذا شروع في الصنف الثالث…
وفي الأخيرين: أي ما إذا كان كلهم أولاد وارث ،هو عصبة ،كبنتي ابني الأخ لأبوين أو لأب أو ذو فرض ،كبنات أخوات متفرقات أو أولاد وارثين ،أحدهما عصبة والآخر ذو فرض، كبنت أخ لأبوين أو لأب، وبنت أخ لأم. ….عند أبي يوسف: يعتبر الأقوى في هذه الصور، ثم يقسم على الأبدان ،للذكر ضعف ما للأنثى .فمن كان أصله أخا لأبوين أولى ممن كان أصله أخا لأب فقط أو لأم فقط. ومن لأب أولى ممن لأم .وعند محمد، وهو الظاهر من قول أبي حنيفة يقسم المال على الأصول أي الإخوة والأخوات مع اعتبار عدد الفروع والجهات في الأصول، فما أصاب كل فريق يقسم بين فروعهم ،كما في الصنف الأول .(رد المحتارعلی الدر المختار :6/ 794)
وکذا فی السراجی فی المیراث:43،مکتبہ مجیدیۃ،ملتان)