021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمائی حرام ہونے کی صورتیں
61816جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

کن صورتوں میں کمائی حرام ہوجاتی ہے؟ مثال کے طور پر میں نے سنا ہے کہ جس کی کمائی حرام کی ہو اس پر کپڑا نہیں بیچ سکتے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کمائی حرام ہونے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً: حرام اشیاء سے حاصل ہونے والی کمائی، سود کی کمائی، اسی طرح شریعت نے خرید وفروخت کے لیے جو بنیادی اصول وضوابط مقرر کیے ہیں ان کی خلاف ورزی کرنے سے بھی کمائی حرام ہوجاتی ہے، مثلاً معدوم یعنی غیر موجود چیز کو بیچنا یا ایسی چیز بیچنا جو بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ حرام آمدن والے شخص سے معاملہ کرنے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس کی کمائی خالص حرام ہو یعنی اس کا کوئی جائز ذریعۂ آمدن نہ ہو تو اُس کو کوئی چیز بیچنا جائز نہیں۔ اور جس شخص کے پاس حلال اور حرام دونوں قسم کے اموال ہوں اُس سے حلال آمدنی کے بقدر معاملہ کرنے کی گنجائش ہے (یعنی اگر بیچنے والے کاغالب گمان یہ ہو کہ جتنے پیسے یہ مجھے دے رہا ہے اس قدر حلال مال اس کے پاس ہے تو معاملہ کرنے کی گنجائش ہے)، لیکن اس سے بھی بچنا بہتر ہے۔
حوالہ جات
فقه البیوع (2/1054): 4- إن خلط الغاصب المال المغصوب أو الحرام بمال نفسه الحلال، فالصحیح فی مذھب الحنفیة أنہ یجوز لہ الانتفاع من المخلوط بقدر حصتہ فیہ، وکذلك یجوز للآخذ منہ ھبةً أو شراءً أو إرثاً أن ینتفع بہ بذلك القدر….. الخ 5- إن لم یعرف فی المخلوط من الحلال و الحرام أنھما متمیزان أو مختلطان، وکم حصة الحلال فی المخلوط؟ فالأولیٰ التنزہ، ولکن یجوز التعامل بذلك المخلوط إذا غلب علی الظن أن المتعامَل بہ لا یتجاوز قدرَ الحلال.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب