آج کل ٹی سی ایس کورئیر نے نئی سروس شروع کی ہے جس کے تحت ڈاک خرچ کے علاوہ کمپنی چیز کی مالیت اور وزن کو دیکھتے ہوئے انشورنس کے چارجز الگ سے لیتی ہے، جس کے بعد چیز کی گمشدگی اور ٹوٹ پھوٹ کی ذمہ داری کمپنی پر ہوتی ہے۔ کیا یہ انشورنس جائز ہے کہ نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کردہ ٹی سی ایس کمپنی کی انشورنس پالیسی سے متعلق کمپنی کے کسٹمر نمائندے سے بذریعہ فون رابطہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انشورنس کمپنی کی اپنی ہے، اور اختیاری ہے، کوئی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، نہ کرنا چاہے تو کمپنی کی طرف سے ضروری نہیں۔ انشورنس کرانے کے بعد اگر سامان میں ٹوٹ پھوٹ ہو یا سامان گم ہوجائے تو کمپنی اس کی تلافی کرتی ہے، اور اگر کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے تو سامان بھیجنے والے کی رقم اس کو واپس نہیں کی جاتی، وہ کمپنی کی ہوتی ہے۔
کمپنی کے کسٹمر نمائندے کی فراہم کردہ مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں ٹی سی ایس کمپنی کی انشورنس پالیسی سود، قمار اور غرر جیسی خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (4/ 170):
مطلب مهم فيما يفعله التجار من دفع ما يسمى سوكرة وتضمين الحربي ما هلك في المركب: وبما قررناه يظهر جواب ما كثر السؤال عنه في زماننا، وهو أنه جرت العادة أن التجار إذا استأجروا مركباً من حربي يدفعون له أجرته ويدفعون أيضاً مالاً معلوماً لرجل حربي مقيم في بلاده يسمى ذلك المال سوكرةً على أنه مهما هلك من المال الذي في المركب بحرق أو غرق أو نهب أو غيره فذلك الرجل ضامن له بمقابلة ما يأخذه منهم، وله وكيل عنه مستأمن في دارنا يقيم في بلاد السواحل الإسلامية بإذن السلطان يقبض من التجار مال السوكرة، وإذا هلك من مالهم في البحر شيء يؤدي ذلك المستأمن للتجار بدلَه تماماً. والذي يظهر لي أنه لا يحل للتاجر أخذ بدل الهالك من ماله؛ لأن هذا التزام ما لا يلزم.