021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موبائل اکاؤنٹ کھلوانے پر ملنے والے فری منٹس اور ایس ایم ایس کا حکم
63838خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بندہ نے جاز کیش اکاؤنٹ بنایا ہے جس میں تین سے پانچ ہزار روپے تک پیسے موجود ہوتے ہیں،پیسے اکاؤنٹ میں رکھنے سے کمپنی کی طرف سے اضافی فری منٹ اور میسج آتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سم میں بیلنس موجود ہوتا ہے اور کمپنی کی طرف سے بھی اضافی فری منٹ ہوتے ہیں،بندہ کسی کو کال کرے تو اضافی فری منٹ ہی خرچ ہوتے ہیں،کیا ان اضافی فری منٹ اور میسج کو استعمال کرنا شرعا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ اس اکاؤنٹ میں آپ نے جو پیسے رکھوائے ہیں اور وہ قرض ہے اور کمپنی کی طرف سے ملنے والے فری منٹس اور ایس ایم ایس قرض پر ملنے والا مشروط نفع ہے جو سود کے حکم میں ہے،اس لیے ان کا استعمال جائز نہیں۔ البتہ اگر کسی نے یہ اکاؤنٹ فری منٹس کے لیے نہیں کھلوایا،بلکہ کسی جگہ رقم کی ترسیل وغیرہ کے لیےکھلوایا ہے اور اکاؤنٹ کھلواتے وقت وہ کمپنی کے نمائندے کو فون کرکے یا موبائل فرنچائز پر جاکر اس بات کی وضاحت بھی کردے کہ اس کا کمپنی سے فری منٹس اور ایس ایم ایس وغیرہ کا مطالبہ نہیں ہے اور وہ کال کے لیے فون میں بیلنس بھی ڈلوائے،لیکن پھر بھی فری منٹس استعمال ہوجاتے ہوں تو اس صورت میں ان فری منٹس کے استعمال کا گناہ نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
" رد المحتار" (5/ 166): "(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه". "القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة" (1/ 312): "لو جرت عادة المقترض بردّ زيادة مما اقترض، فهل ينزل منزلة الشرط. فيحرم إقراضه؟الأصح لا". "الأشباه والنظائر لابن نجيم" (ص: 85): "وهنا مسألتان لم أرهما الآن، يمكن تخريجهما على أن المعروف كالمشروط، وفي البزازية المشروط عرفا كالمشروط شرعا منها: لو جرت عادة المقترض برد أزيد مما اقترض هل يحرم إقراضه تنزيلا لعادته بمنزلة الشرط؟ ومنها لو بارز كافرا مسلم، واطردت العادة بالأمان للكافر، هل يكون بمنزلة اشتراط الأمان له فيحرم على المسلمين إعانة المسلم عليه؟". "غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر" (1/ 307): "قوله: ومنها لو جرت عادة المقترض: الصواب أن يقال: الأولى أي من المسألتين اللتين لم يرهما هل يحرم إقراضه؟ قيل: الذي يؤدي إليه نظر الفقيه أنه لا يحرم؛ لأنه يحمل على المكافأة على المعروف وهو مندوب إليه شرعا حيث دفعه المقرض قرضامحضا فجازاه عليه، ولم يشترط ودفعه المستقرض لا على وجه الربا، ويظهر في الثانية حرمة الإعانة للعادة المطردة تأمل".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب