021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک سفر میں متعدد عمرے کرنا
63746حج کے احکام ومسائلعمرہ کے مسائل

سوال

سوال:مکہ میں پہلا عمرہ کرنے کے بعد لوگ مسجد عائشہ سے اور کچھ لوگ مسجد جعرانہ سے عمرہ کرتے ہیں،جبکہ ایک سعودی عالم نے مسجد میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح عمرہ نہیں ہوتا اور مزید یہ بھی کہا کہ ایک سفر میں ایک ہی عمرہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اس کے ساتھ انہوں نے یہ مسئلہ بھی بیان کیا کہ جس نے عمرہ کرنا ہے وہ میقات سے احرم باندھے،تب ہی عمرہ ادا ہوگا،اس کا شرعی حکم بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جمہور فقہاء امت کے نزدیک ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرے کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے،بلکہ حدیث میں اس کی فضیلت بھی آئی ہے،چنانچہ "صحيح البخاري" (3/ 2) پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة»جس کا مفہوم ہے کہ ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہےاور مقبول حج کا بدلہ جنت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لہذا اس بات سے کہ حضور نے ایک سفر میں ایک سےزیادہ عمرے نہیں فرمائے یہ استدلال کرنا ٹھیک نہیں کہ ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرے درست نہیں،کیونکہ کسی فعل کا استحباب جس طرح حضور کے فعل سے ثابت ہوتا ہے،اسی طرح آپ کے قول سے بھی ثابت ہوتا ہے اور بخاری کے مذکورہ بالا حدیث بغیر کسی قسم کے قیود کے عمروں کی کثرت پر واضح دلیل ہے۔ نیزایک عمرہ کرنے کے بعد دوسرا عمرہ کرنے کے لیے میقات جاکر احرام باندھنا ضروری نہیں،بلکہ حرم کی حدود سے نکل کر حل سے احرام باندھا جاسکتا ہے،جیسا کہ حضور نے حضرت عائشہ کو عمرے کا احرام باندھنے کے لیے حل بھیجا تھا،جہاں آج کل مسجد عائشہ واقع ہے۔
حوالہ جات
"فتح الباري لابن حجر" (3/ 598): "وفي حديث الباب دلالة على استحباب الاستكثار من الاعتمار خلافا لقول من قال يكره أن يعتمر في السنة أكثر من مرة كالمالكية ولمن قال مرة في الشهر من غيرهم واستدل لهم بأنه صلى الله عليه وسلم لم يفعلها إلا من سنة إلى سنة وأفعاله على الوجوب أو الندب وتعقب بأن المندوب لم ينحصر في أفعاله فقد كان يترك الشيء وهو يستحب فعله لرفع المشقة عن أمته وقد ندب إلى ذلك بلفظه فثبت الاستحباب من غير تقييد". "الاستذكار "(4/ 113): "والجمهور على جواز الاستكثار منها في اليوم والليلة لأنه عمل بر وخير فلا يجب الامتناع منه إلا بدليل ولا دليل أمنع منه بل الدليل يدل عليه بقول الله عز وجل: (وافعلوا الخير) الحج :77 وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة". "الدر المختار " (2/ 478): "(وحل لأهل داخلها) يعني لكل من وجد في داخل المواقيت (دخول مكة غير محرم) ما لم يرد نسكا للحرج كما لو جاوزها حطابو مكة فهذا (ميقاته الحل) الذي بين المواقيت والحرم. (و) الميقات (لمن بمكة) يعني من بداخل الحرم (للحج الحرم وللعمرة الحل) ليتحقق نوع سفر".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب