021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوبھائی اورتین بہنوں میں میراث کی تقسیم کاطریقہ, موروثی مکان پر تعمیراتی اخراجات اور والد مرحوم کے قرض کی ادائیگی میراث سے وصول کرنا
61060میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم! میراث کےحوالےسےآپ کی رہنمائی درکارہے۔میرےوالدصاحب نےورثےمیں ایک گھرچھوڑا ہے۔ہم دوبھائی اورتین بہنیں ہیں،میں سب سےبڑابھائی ہوں،میری منگنی کےوقت میں نےاورمیرےوالدنےمل کرگھرکی تعمیرکی،تین سال بعد جب میری شادی ہوئی تومیں نےاس عمارت کی پہلی منزل فرنش(تزیین وآرائش)کروائی۔پانچ سال بعد میری دوبہنوں کی شادی ہوگئی(اس وقت بھی والدصاحب حیات تھے)پھردوسال بعداچانک ایک دن والدصاحب کواٹیک ہوگیااوروہ اس دارفانی سےکوچ کرگئے،پھرٹھیک ایک سال بعداللہ کی مددسےمیں نےاپنی آخری بہن کی شادی کرادی۔میری شادی کےایک سال بعدمیراچھوٹابھائی بیرون ملک روانہ ہوگیااورآج تک گھرواپس نہیں آیا(البتہ فون پراس سے رابطہ ہے)۔چندسال قبل میں نےاپنےگھر کی تزیین وآرئش کروائی جس میں کافی ساراپیسہ لگ گیا۔ آج میں اس ورثے میں چھوڑے ہوئےگھرکوشریعت کےاصولوں کےمطابق تقسیم کرنا چاہتاہوں،آپ اس مسئلہ میں میری مکمل رہنمائی فرمائیں۔جزاک اللہ تنقیح:مرحوم کی بیوی،والدین،دادااوردادی حیات نہیں اورمرحوم پردس ہزارڈالر قرضہ تھا جومیں (بڑےبھائی )نےوالد کی وفات کےبعد(دس ہزارڈالرکی صورت میں)اداکیااوردس ہزارڈالر کی پاکستانی قیمت معلوم نہیں اوردیگرورثاسےپوچھےبغیرگھرکی تزیین اوراوپر والی منزل بھی تعمیر کی ہےاوراس گھرمیں میری رہائش ہے،جبکہ میراچھوٹابھائی پچیس سال سےکینڈا میں رہائش پذیر ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ میں ایک مکان ہےجس میں بڑابیٹا رہائش پذیر ہے،جبکہ ورثہ میں ایک بھائی اور تین بہنیں شامل ہیں اوربڑےبھائی نےمکان پرکچھ رقم خرچ کی ہےاورمرحوم کاقرض بھی اتاراہے،اس لیےدرج ذیل امور کے بعدترکہ تقسیم ہوگا۔ ۱-مکان کی تزیین وآرئش میں بڑے بیٹےنےپیسےتوخرچ کیےہیں لیکن خوداس میں رہائش پذیربھی ہے اور دوسروں کی طرف سےاس کامطالبہ بھی نہیں تھالہذاوہ اس خرچ کومیراث سےوصول نہیں کرسکتا۔پورامکان ترکہ ہے اور اس میں سب ورثہ کاحصہ ہے۔ ۲-والدصاحب کےساتھ گھربناتےوقت جوپیسےوالدکودیےہیں اگربیٹے نے بطورقرض دیےہیں تووہ ترکہ سےنکالےجائیں گےاوراگرقرض کی تصریح نہیں کی تووہ سب والدصاحب کاترکہ شمار ہوگا۔اگردیگرورثہ تصدیق کردیں توٹھیک ورنہ قرض ہونےکےگواہ پیش کرنابھی بیٹےکےذمےہوگا۔ ۳-اگر مشترکہ لین دین میں بڑابھائی ہی مختارسمجھاجاتاتھااوردوسرےبہن بھائیوں کی طرف سےاس کوصراحۃ ًیادلالۃ ًاجازت تھی تو قرض(10000ڈالر)کی ادائیگی ترکہ میں سے سمجھی جائے گی اوراگربہن بھائیوں کی طرف سےصراحۃ ًیادلالۃ ًاجازت نہیں تھی توقرض کی ادائیگی بڑےبھائی کی طرف سے تبرع ہوگا جس کووہ ترکہ میں سےوصول نہیں کرسکتا ۔پھرمکان کی قیمت لگاکر اس کی تعمیراگرورثہ کی اجازت سےہوئی چاہےرضامندی صراحۃًہویادلالۃًتواس کاخرچ اورقرض کامجموعہ منہاکرنےکےبعد باقی ترکہ ورثہ میں درج ذیل طریقے کےمطابق تقسیم کیا جائےگا: بیٹوں میں سے ہرایک بیٹےکو28.57% بیٹیوں میں سے ہرایک بیٹی کو14.28%, حصہ ملےگا ۔ اگرورثہ کی صراحۃً اجازت یادلالۃًرضامندی سےمکان تعمیرنہیں کیاتوخرچ کرنے والا دیگر ورثہ سے تعمیرکی اصل قیمت وصول نہیں کرسکتاصرف ایسی تعمیراتی ڈھانچے کی قیمت وصول کرسکتاہے (جس کےگرانےکافیصلہ کیا جا چکا ہو)۔بہتریہ ہےکہ باہمی مشاورت سےمناسب قیمت طےکرلی جائےتاکہ کسی فریق کونقصان نہ ہو۔
حوالہ جات
كفن الوارث الميت أو قضى دينه (من مال نفسه) فإنه يرجع ولا يكون متطوعا. (الدر المختار :10/ 463 ،دارالمعرفۃ) إنما يرجع عليه مع أنه لم يأمره بالضمان عنه لانه أدى دينه، وهو مضطر في أدائه.فتح.فهو كمعير الرهن إذا قضى الدين لتخليص الرهن يرجع على المديون لأنه مضطر في أدائه.( رد المحتار :5/ 201مطبع سعید) الشريك إذا لم يضطر إلى العمارة مع شريكه بأن أمكنه القسمة فأنفق بلا إذنه فهو متبرع، وإن اضطر وكان الشريك يجبر على العمل معه فلا بد من إذنه أو أمر القاضي فيرجع بما أنفق، وإلا فهو متبرع. (رد المحتار:6/ 509،دارالمعرفۃ) أنه إذا كانت الدار تحتمل القسمة، فإن أذن له شريكه بنى، وإلا قسمها جبرا عليه ثم بنى في حصته، فإن لم يكن استئذانه يبنى بإذن القاضي، وفيما عدا ذلك فهو متطوع. وذكر سيدي الوالد رحمه الله تعالى في كتاب القسمة من تنقيحه أن في غير محتمل القسمة للطالب أن يبني ثم يؤجر ثم يأخذ نصف ما أنفق في البناء من الغلة. وذكر هناك عن الاشباه أنه يرجع بما أنفق لو بنى بأمر قاض إلا فبقيمة البناء وقت البناء ا ه. وهذا هو المحرر كما قال في الوهبانية، لكن هذا التفصيل إنما ذكروه في السفل إذا انهدم، وعبارة الاشباه مطلقة. (تكملة حاشية رد المحتار :2/ 55مکتبۃ رشیدیۃ) إذا كان علو لرجل والسفل لآخر فانهدم السفل بنفسه فلأنه لا يجبر ذو السفل على البناء حينئذ إذ لو أجبر إنما يجبر لحقه، أو لحق ذي العلو لا وجه إلى الأول وهو ظاهر ولا إلى الثاني إذ حقه فات بلا تعد من ذي السفل فلا يلزمه أن يعيده فيقال، لذي العلو: ابن السفل إن شئت حتى تبلغ موضع علوك ثم ابن علوك فلو بناه فله أن يمنع ذا السفل حتى يؤدي قيمة البناء إلى ذي العلو إذ البناء ملك الباني لبنائه بغير الأمر كغاصب إلا أن الغاصب متعد في البناء فلم يجز له منع رب الأرض من الانتفاع بأرضه وذو العلو محق في البناء؛ لأنه مضطر لإحياء حقه فله المنع منه ثم إذا أدى إليه قيمة البناء ملكه، ولو بلا رضا صاحب العلو ولو امتنع رب السفل عن الانتفاع بسفله وعن أداء القيمة لا يجبر عليه.(مجمع الضمانات:ص 288) إذا وهب شخص شيئا لأصوله وفروعه أو لأخيه أو لأخته أو لأولادهما أو لأخ وأخت أبيه وأمه فليس له الرجوع بعد الهبة. (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:2/ 462)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب