021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسٹامپ پیپر پر لکھ کر تین طلاقیں دینے کا حکم
64085طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں بنت حوا مسلم ،بالغ ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں جس میں آپ کی راہنمائی انتہائی اہم ہے،برائے مہربانی اس سلسلے میں ہماری مکمل راہنمائی فرمائیں۔ مسمی محمد ۔۔۔۔ مسلم،بالغ،عاقل نے مجھے مورخہ2018۔08۔10 کو سو روپے کے اسٹامپ پیپر پرجس میں تین دفعہ میرے اور ان کے نام کے ساتھ طلاق کا لفظ مکمل تحریر تھا مجھ سے دستخط لیے اور میرے والد اور میرےشوہر کے ایک دوست عبداللہ کی موجودگی میں مجھے اسی پیپر پر لکھ کر طلاق دی۔ اب شوہر نے جو کاپی ہمیں دی اس پر آخر میں ذہنی حالت صحیح نہ ہونا پین سے لکھ دیا ہے اور مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ میں نے جو طلاق دو گواہان کی موجودگی میں دستخط کرکے دی ہے وہ منہ سے ادا نہیں کی اور وہ طلاق نہیں ہوئی اور مسلسل اس پر اصرار کررہے ہیں کہ باہمی ازدواجی تعلق برقرار رکھا جائے،جبکہ مورخہ2018۔08۔11 سے میں عدت میں ہوں،میرے پاس طلاق کے اصل کاغذ نہیں ہیں اور نہ مجھے دیئے جارہے ہیں،میرا حق مہر بھی ادا نہیں کررہے ہیں،بس مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ کسی اور مسلک کے حوالے سے طلاق نہیں ہوئی اور میں واپس ان کے رشتہ ازدواج میں آجاؤں،مسمی محمد نعیم کی مجھ سے تیسری شادی تھی،اب وہ روزانہ کسی نہ کسی وجہ سے میرے گھر والوں خصوصا والدین کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مجھے آپ کی راہنمائی درکار ہے کہ چار دن بحث اور شدید اختلاف کے بعد جب میں حددرجہ کوشش کی کہ طلاق نہ ہو،پھر بھی مجھے میرے والد اور ان کے ہمراہ آئے دوست کے سامنے لکھ کر ہوش و حواس میں طلاق دی اور فوٹو کاپی کے بہانے پیپر لے کر چلے گئے،برائے مہربانی یہ بتائیں کہ طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وقوعِ طلاق کے لیے طلاق کے الفاظ منہ سے بولنا ضروری نہیں،بلکہ تحریری طور پر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،اس لیے سوال کے ساتھ منسلک طلاق نامے کی روشنی میں آپ کو تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،جس کے بعد موجودہ حالت میں آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ممکن نہیں رہا۔ تین طلاقیں دینے کے بعد اس معاملے میں کسی غیر مقلد عالم کے فتوی کا سہارا لینا درست نہیں،اس کی وجہ سے بیوی سابقہ شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی،کیونکہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک ائمہ اربعہ سمیت جمہور اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے سے تین ہی واقع ہوتی ہیں ،خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جن کی روایت کو بنیاد بنا کر غیر مقلدین تین طلاقوں کے ایک ہونے کا حکم لگاتے ہیں،ان کافتوی بھی اسی کے مطابق ہےکہ تین طلاقیں تین ہوتی ہیں،ایک نہیں۔ چنانچہ سنن ابی داود میں حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں،حضرت ابن عباس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا تم میں سے کوئی حماقت کی سواری پر سوار ہوکر آتا ہے اور کہتا ہے: اے ابن عباس اے ابن عباس ! اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے کوئی راستہ بنادیتے ہیں،تم اللہ سے نہیں ڈرے،اس لیے میں تمہارے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا،تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی ہے۔ " سنن أبي داود"(3/ 519)" "حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا إسماعيل، أخبرنا أيوب، عن عبد الله ابن كثيرعن مجاهد، قال: كنت عند ابن عباس، فجاءه رجل فقال: إنه طلق امرأته ثلاثا، قال: فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه، ثم قال: ينطلق أحدكم فيركب الحموقة ثم يقول: يا ابن عباس، يا ابن عباس، وإن الله قال: {ومن يتق الله يجعل له مخرجا} [الطلاق: 2] وإنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجا، عصيت ربك، وبانت منك امرأتك". اس موضوع پر علماء نے مفصل کتابیں لکھی ہیں ،تفصیل کے لئے دیکھیں” الطلقات الثلاث “،مولانا سرفراز خان صفد ر رحمہ اللہ کی ،”مسئلہ طلاق ثلاثہ “،مصنف مولانا شفیع اوکاڑوی صاحب اور"طلاق ثلاثہ صحیح ماخذ کی روشنی میں" جس کے مصنف مولانا حبیب قاسمی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند ہیں ،نیز" فتاوی محمودیہ:" 12\374اور "خیرالفتاوی": 5\30 پر بھی اس موضوع پر تفصیلی بحث موجود ہے۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 246): كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة". قال ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة". "البحر الرائق " (3/ 257): "ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة لأنه مخالف للإجماع كما حكاه في المعراج ولذا قالوا: لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ فيه الاجتهاد لأنه خلاف لا اختلاف".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب