ہمارے ہاں لوگ گنے فروخت کرنے کے لیےشوگر مل بھیجتے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مل والے گنے کا وزن کر کے خرید لیتے ہیں ۔اس کی قیمت کی رسید بنا دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قیمت تب ملے گی جب گنا مل میں اتر جائے گا۔بکنے کے بعد قطار میں لگ کر کافی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔بعض لوگ ایسا کرتے ہیں مثلاً زیدنے گنے بیچے اور اسکو رقم کی فوراً ضرورت ہے تو وہ بکر کو رسید دے کر اس سے رسید میں لکھی ہوئی رقم سے کم نقد وصول کر لیتے ہیں مثلا 80ہزار کی رسید 75 ہزار میں دے دیتے ہیں جو بعدمیں بکر مل سے کیش کروا لیتا ہے۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
دین (معاوضہ جو کسی عقد کے نتیجے میں لازم ہو) کسی کو بیچنا شرعاً جائز نہیں، سوائے اس شخص کےجس پر یہ دین ہو۔مذکورہ صورت میں زید کا مل کے ذمہ گنے کی قیمت کے بقدر دین قائم ہو گیا ہے جو کسی اور کو بیچنا شرعاًجائز نہیں۔
البتہ اگر یوں کر لیں کہ پہلے زید وہ گنا مل کی بجائے بکرکو کم دام پر نقد فروخت کر دے اور پھر بکراپنی ذمہ داری پر مل کے ساتھ معاملہ کر لے تو درست ہے۔
اگر ایسا کرنا ممکن نہ رہے تو بوقت اشد مجبوری یوں بھی کر سکتے ہیں کہ زید بکر کو رسید کیش کرانے کا وکیل بنا دے اس کو وصول کرنے کی اجرت کے طور پر 5000 دے دے،پھربکر سے رسید میں لکھی ہوئی رقم کے بقدر قرض لےکراس سےیہ کہے کہ جب رسید میں لکھی ہوئی رقم وصول ہو جائے تو اس قرض کے عوض میں جو میں نے لیا ہے خود رکھ لے۔لیکن اس صورت میں اگر بکر کو کسی وجہ سےرسید کی رقم وصول نہ ہوئی تو وہ زید سے لینے کا حقدار ہو گا۔
حوالہ جات
(رد المحتار) (4/ 517)
وعبارة المصنف في فتاواه سئل عن بيع الجامكية: وهو أن يكون لرجل جامكية في بيت المال ويحتاج إلى دراهم معجلة قبل أن تخرج الجامكية فيقول له رجل: بعتني جامكيتك التي قدرها كذا بكذا، أنقص من حقه في الجامكية فيقول له: بعتك فهل البيع المذكور صحيح أم لا لكونه بيع الدين بنقد أجاب إذا باع الدين من غير من هو عليه كما ذكر لا يصح
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم