سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں
زید کا انتقال ہو چکا ہے انتقال کے اٹھارہ برس قبل اس نے ایک بیمہ کمپنی کی پالیسی لی تھی اور ایک سال کی اقساط جمع کرنے کے بعد کوئی قسط جمع نہیں کروائی جو کہ ڈیڑھ لاکھ روپے بنتے ہیں ۔اس کےانتقال کے بعد ان کے گھر والوں سے ایک بیمہ ایجنٹ یہ کہتا ہے کہ اگر آپ میرا ساتھ دیں تو میں بیک ڈیٹ میں اس کیdeath certificate تیار کر کے اس کے یتیم بچوں کے لیے بیمہ کمپنی سے ۲۵لاکھ سے زیادہ رقم وصول کر سکتا ہوں۔ حالانکہ کمپنی نے اس پالیسی کو کینسل کر دیا ہے۔
١۔کیا اس طرح سے رقم حاصل کرنا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بیمہ کمپنی کے ساتھ ہو نے والا معاملہ چاہے کمپنی کے اصولوں کے مطابق بھی ہو تب بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اس میں دھوکہ بھی کیا جائے، جبکہ دھوکے اور جھوٹ سے حاصل ہونے والی رقم عام معاملات میں بھی شرعاًحلال نہیں ہوتی۔
زید کا بیمہ کمپنی کے ساتھ کیا ہوا معاملہ جسے اس نے ترک کر دیا تھا جائز نہیں تھا اور Back date میں Death certificate تیار کروانا دھوکہ ہے جو کسی صورت میں جائز ہیں۔ یتیموں کی مدد کی نیت سے حرام مال کا حاصل کر جائز نہیں بلکہ حرام کا سہارہ لیے بغیر حلال مال سے جتنا ہو سکے یتیموں کی مدد کرنی چاہیے۔
حوالہ جات
﴿أَحَلَّ الّله البيع وَحَرَّمَ الربا﴾ )البقرة : 275 (
(رد المحتار) (5/ 166)
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر
صحيح مسلم (1/ 99)
أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال من حمل علينا السلاح فليس منا ومن غشنا فليس منا