021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجیر خاص کی کوتاہی پر نقصان کے تاون کاحکم
61218.2اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ہمارا ایک تجارتی ادارہ ہے۔ادارے نے سامان کی نقل و حمل کے لیے سوزوکی گاڑی رکھی ہوئی تھی،جس کی ڈرائیونگ کی ذمہ داری کے لیے ایک ملازم رکھا ہوا تھا۔ڈرائیور پابند تھا کہ سپر وائزر کی ہدایات پر کمپنی کے مقاصد کے لیے گاڑی استعمال کرے گا۔اور سپرد کیے گئے کام کو انجام دینے کے بعد گاڑی واپس کمپنی کی گیراج میں کھڑی کرے گا۔اسی طرح ذاتی مقاصد کے لیے گاڑی استعمال کرنے کی عام حالات میں اجازت نہیں۔اگر کسی صورت میں گاڑی استعمال کرنی پڑے تو اس کی پیشگی اجازت سپر وائزر سے لے گا۔ گذشتہ دنوں یہ واقعہ پیش آیا کہ کمپنی کے سپروائزر کے حکم پر ڈرائیور کمپنی کی گاڑی پر کچھ سامان ایک مخصوص جگہ پہنچانے گیا۔سامان پہنچانے کے بعد گاڑی واپس کمپنی کے گیراج میں لانے کا پابند تھا۔لیکن واپسی پر ڈرائیور نے سب سے پہلے معمول کے محفوظ اور مختصر راستے سے ہٹ کر دوسرے طویل راستے کو اختیار کیا،جس کی وجہ ڈرائیور کے بقول ٹریفک کا رش تھا۔مزید یہ کہ ڈرائیورنے جس راستہ کو اختیار کیا ،اس راستہ سے سیدھا کمپنی آنے کے بجائےبھائی کے فون کرنے پر اس کو لینے کی غرض سے ایک اور راستہ کی طرف گاڑی موڑدی۔یہ راستہ بھی معمول کے راستہ سے 4کلو میٹر طویل تھا۔بھائی کو لینے یہ ایک بازار جا پہنچا۔اور گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرکے بھائی کے پیچھے بازار کے اندر گیا،جہاں بھائی کے ساتھ برگر کھانے ایک دکان میں بیٹھ گیا۔آدھے گھنٹے بعد جب واپس آیا تو گاڑی چوری ہوچکی تھی۔جس کو اردگرد تلاش کرنے کے بعد ڈرائیور نے کمپنی انتظامیہ کی ہدایت پر تھانے میں اندراج کروایا۔(ان ساری باتوں کا اقرار ڈرائیور کرچکا ہے۔) مذکورہ تمام پس منظر کے بعد سوال یہ ہے کہ: 1. گاڑی کا تاوان کس پر آئے گا؟ 2. ڈرائیور پر آنے کی صورت میں گاڑی کی کونسی قیمت کا تاوان آئے گا؟ 3. کیا ادارے کی انتظامیہ اپنی صوابدید پر ڈرائیور کو معاف کرسکتی ہے؟ 4. اسی طرح تنبیہ کی ایسی کون سی صورتیں اختیار کرنا اس صورت میں مناسب ہے؟ والسلام

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ ملازم شریعت کی اصطلاح میں کمپنی کا "اجیر خاص"(private Employee) کہلاتا ہے۔جس کے بارے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ عام حالات میں وہ نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔البتہ اگر (Employer)کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق وہ کام نہ کرے ،اور اس کے نتیجے میں اس پر کوئی نقصان ہوجائے،تو اس نقصان کی ذمہ داری اس ملازم پر آئے گی۔لہذا: 1. ڈرائیور نے اگر واقعی کوتاہی کی ہے ،جس کے نتیجے میں گاڑی چوری ہوئی ہے،جیسا کہ سوال میں مذکور ہے،تو اس نقصان کا تاوان ڈرائیور پر آئے گا۔ 2. استعمال شدہ گاڑی ایسی چیز ہے کہ بالکل اسی طرح کی گاڑی بازار میں ملنا ناممکن ہے،ایسی چیز کو شریعت کی اصطلاح میں قیمی(Heterogeneous)کہتے ہیں۔ایسی چیزوں کے تاوان کے بارے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ اس کے مارکیٹ ریٹ (Market Value)کے ذریعے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے،لہذا صورت مذکورہ میں اس جیسی گاڑی کی مارکیٹ میں جو قیمت چل رہی ہو،ڈرائیور پر وہ لازم ہوگی۔ 3. ادارے کی انتظامیہ نہ صرف ڈرائیور کو معاف کرسکتی ہے ،بلکہ معاف کرنا ان کے لیے باعث اجر بھی ہوگا۔ بشرطیکہ کمپنی کے مالک نے انتظامیہ کو اس قسم کے اقدامات کی اجازت دی ہو۔اگر مالک نے اجازت نہیں دی تو انتظامیہ معاف نہیں کرسکتی،البتہ مالک کو ڈرائیور کے معاف کردینے کی سفارش کرسکتی ہے۔ 4. تاوان کے علاوہ تنبیہ کی کوئی اور صورت اختیار نہیں کی جاسکتی۔البتہ چونکہ یہ کمپنی کا ملازم ہے،تو کمپنی اس کے ساتھ کنٹریکٹ ختم کرکے اس کو ملازمت سے فارغ کرسکتی ہے۔اور نئے سرے سے کنٹریکٹ کرکے اسے کم تنخواہ پر ملازم رکھا جاسکتا ہے۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 138) (ولا يضمن ما تلف في يده أو بعمله) أما الأول فلأن العين أمانة في يده؛ لأنه قبضها باذنہ۔وأما الثاني فلأن المنافع صارت مملوكة للمستأجر، فإذا أمره بالصرف إلى ملكه صح وصار نائبا منا به فصار فعله منقولا إليه كأنه فعله بنفسه إلا إذا تعمد الفساد فيضمن للتعدي كالمودع. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 70) (ولا يضمن ما هلك في يده) أي بغير صنعه بالإجماع، وقوله أو بعمله: أي المأذون فيه، فإن أمره بعمل فعمل غيره ضمن ما تولد منه تتارخانية. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 516) أن ضمان المثليات بالمثل لا بالقيمة والقيميات بالقيمة لا بالثمن۔ المبسوط للسرخسي (11/ 51) والواجب على الغاصب ضمان القيمة عند تعذر رد العين عندنا۔ أحكام القرآن للجصاص (2/ 325) (الذين ينفقون في السراء والضراء والكاظمين الغيظ والعافين عن الناس والله يحب المحسنين. فمدح من كظم غيظه وعفا عمن اجترم إليه وقال عمر بن الخطاب من خاف الله لم يشف غيظه ومن اتقى الله لم يصنع ما يريد ولولا يوم القيامة لكان غير ما ترون وكظم الغيظ والعفو مندوب إليهما موعود بالثواب عليهما من الله تعالى۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب