021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدین کی مرضی کے خلاف شادی
63252نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

اگر کوئی لڑکا یا لڑکی اپنے والدین کی مرضی کے بغیر اپنی پسند کی شادی کر لے اور والدین سے تعلق ختم کر دے،جبکہ والدین کے ان پر بے حد احسانات ہوتے ہیں،بچپن سے لے کر جوانی تک ان کو پالا،ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت کیے،والدین نے اپنی پرواہ کیے بغیر ان کی تعلیم پر توجہ دی،تاکہ میرا لڑکا ڈاکٹر ،انجینیربنے،کسی کام کے قابل بنے اور بڑھاپے میں ہمارا سہارا بنے،بعض اوقات ایک ہی بیٹا یا بیٹی ہوتی ہے ،والدین اپنا سارا خرچہ اس کی تعلیم کے لیے وقف کر دیتے ہیں،کہ مستقبل روشن ہو،لیکن بیٹا یا بیٹی اپنی مرضی کی شادی کر کےلا تعلق ہو جاتے ہیں،اس کے بارے میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں: کیا لڑکی یا لڑکے کا والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگربالغ لڑکی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف کفو میں (نسب،دینداری،مال اور پیشے میں برابرکے ساتھ) نکاح کرے تو نکاح منعقد ہو جائے گا،البتہ والدین کے اتنے سارے احسانات کی وجہ سے بچوں کابہرحال اخلاقی فرض ہےکہ شادی کرتے وقت والدین کی رضا مندی کا خیال رکھیں۔والدین کو اولاد سے بے مثال محبت ہوتی ہے،وہ ان کے خیر خواہ ہوتے ہیں،وہ اولاد کے لیے جو فیصلہ کرتے ہیں وہ عموماً ان کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔اس کے برعکس نوجوان لڑکا یا لڑکی کسی کی محبت میں گرفتار ہو کرشادی رچا لیتے ہیں،مگر چند ماہ بعد جب محبت کا نشہ اترتا ہے یا آپس میں کسی وجہ سے نباہ نہیں ہوتا اور والدین اور خاندان سے لاتعلق ہو چکے ہوتے ہیں تو سخت پریشان ہوتے ہیں اور عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔تاہم والدین کو بھی چاہیے کہ دینداری اور اسلامی تہذیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بچوں کی پسند کا بھی خیال رکھیں،ان کی بے جا ضد اور اصرار بھی بعض اوقات بچوں کے آزاد اور آوارہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اگر کوئی بالغ لڑکی غیر کفو میں والدین کی مرضی کے بغیر نکاح کرے تو وہ نکاح باطل اور کالعدم ہے۔لڑکا اگر غیر کفو میں نکاح کرے تو وہ منعقد ہو جاتا ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (7/ 58) ( الباب الخامس في الأكفاء ) الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح ، كذا في محيط السرخسي ولا تعتبر في جانب النساء للرجال ، كذا في البدائع . فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها ؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لا يتعير بأن يكون تحت الرجل من لا يكافؤه ، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي . الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 195) وإذا زوجت المرأة نفسها من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما " دفعا لضرر العار عن أنفسهم الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 84) (قوله الكفاءة معتبرة) قالوا معناه معتبرة في اللزوم على الأولياء حتى أن عند عدمها جاز للولي الفسخ. اهـ. فتح وهذا بناء على ظاهر الرواية من أن العقد صحيح، وللولي الاعتراض، أما على رواية الحسن المختارة للفتوى من أنه لا يصح. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 229) وأما ركن النكاح فهو الإيجاب والقبول.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب