ایک شخص کا ایک ہوٹل اور ایک دودھ کی دکان ہے ۔اگر وہ ہوٹل اس شرط کے ساتھ کرایہ پر دے کہ آپ نے ہوٹل کے لیے دودھ میری ہی دکان سے خریدنا ہے،کیا اس شرط کے ساتھ ہوٹل کرایہ پر دینا درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کرایہ پر کوئی چیز دیتے وقت کوئی ایسی اضافی شرط لگانا جو عقد کا تقاضہ نہ ہو اور اس میں کسی ایک فریق کا واضح فائدہ ہو تو اس سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے۔مذکورہ معاملہ میں چونکہ مالک مکان ایک ایسی اضافی شرط لگا رہا ہے جس میں اس کا فائدہ ہے اس لیے اجارہ میں یہ شرط لگانا درست نہیں ہے۔البتہ اگر اجارہ کے عقد سے الگ محض ایک وعدے کے درجے میں ایسا ہو تو درست ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 46)
(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 121)
(باب الإجارة الفاسدة) قال - رحمه الله - (يفسد الإجارة الشروط) لأنها بمنزلة البيع. ألا ترى أنها تقال وتفسخ فتفسدها الشروط التي لا يقتضيها العقد كالبيع،
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم