وہ غذائی اشیاء جو حنفی مسلک کے مطابق حرام یا مکروہ تحریمی ہوں لیکن دیگر ائمہ کے نزدیک ان کا کھانا حلال ہو،کسی حنفی کے لیے ایسی غذائی اشیاء کا کاروبار کرنا شرعاً کیسا ہے،جبکہ خریدار حنفی یا غیر حنفی بھی ہو سکتا ہے؟اسی طرح خریدار غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے۔ایسی غذائی اشیاء کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1)مچھلی کے علاوہ دوسرے سمندری جانور شوافع اور مالکیہ کے نزدیک حلال ہیں،جبکہ احناف کے نزدیک حرام ہیں۔
2)کپورے(خصیتین)شوافع کے نزدیک حلال ہیں جبکہ احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی ہیں۔
3)لگڑ بگڑ اور گوہ احناف کے نزدیک حرام ہیں جبکہ شوافع کے ہاں حلال ہیں۔
4)کیڑے احناف کے نزدیک حرام ہیں جبکہ امام مالک کے نزدیک چند شرائط کے ساتھ حلال ہیں۔آجکل ایک غذائی رنگ E120ایک کیڑے کوچنیل(Cochineal)سے تیار کیا جا رہا ہے اور مختلف کھانے پینے کی اشیاء میں استعمال ہو رہا ہے۔
سوال اس پس منظر میں ہے کہ ہمارے بہت سے پاکستانی بھائی بیرون ممالک مثلاً ملیشیاء،انڈونیشیاء،امریکہ،برطانیہ وغیرہ میں اپنا سٹور چلاتے ہیں جس میں خریدار ایسی اشیاء مہیا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اسی طرح ہمارے ملک پاکستان میں بھی کپورے بیچے جاتے ہیں اور بڑے سٹوروں پر ایسی درآمد شدہ غذائی اشیاء فروخت ہوتی ہیں جن میں کوچینل کیڑے سے تیار کیا گیا رنگ بھی شامل ہوتا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تمہیدی طور پر دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
1)کھانے پینے کی حلت و حرمت کا ضابطہ خرید و فروخت کے ضابطہ سے بالکل الگ ہیں۔
2)جن اشیاء کا مسلمان کو بیچنا ناجائز ہے وہ غیر مسلم کو بیچنا بھی ناجائز ہے۔
مذکورہ تمہید کے بعد، احناف کے نزدیک ان تمام اشیاء کی بیع جائز ہے جن کا کوئی جائز استعمال موجود ہو، اگر چہ کھانا جائز نہ ہو ،اور جن اشیاء کا جائز استعمال موجود نہ ہو تو اس کی بیع احناف کے ہاں جائز نہیں ہے۔
مذکورہ سوال میں ذکر کردہ اشیاء(مچھلی کے علاوہ دوسرے سمندری جانور، کپورے، لگڑ بگڑ ، گوہ اور کیڑے) وغیرہ کا کھانے کے علاوہ اگر کوئی جائز استعمال ہو تو ان کا بیچنا جائز ہے،البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ اسے کھانے میں ہی استعمال کرے گا تو اس شخص کو بیچنا مکروہ تحریمی ہے۔
اور اگر کوئی جائز استعمال نہ ہو تو حنفی کے لیے اس کو بیچنا جائز نہیں ،چاہے حنفی کو بیچے،غیر حنفی کو بیچے یا غیر مسلم کو۔
باقی رہی غذائی اشیاء جو کھانے ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں اگر اس میں حرام اجزاء (جیسے کوچینل کیڑے سے تیار کردہ رنگ وغیرہ )شامل ہوں تو ان کی بیع جائز نہیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 69)
(بخلاف غيرهما من الهوام) فلا يجوز اتفاقا كحيات وضب وما في بحر كسرطان، إلا السمك وما جاز الانتفاع بجلده أو عظمه.والحاصل أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع مجتبى، واعتمده المصنف وسيجيء في المتفرقات
الموسوعة الفقهية الكويتية (40/ 102)
وذكر أبو الليث أنه يجوز بيع الحيات إذا كان ينتفع بها في الأدوية وإن لم ينتفع فلا يجوز .
ويجوز بيع الدهن النجس لأنه ينتفع به للاستصباح فهو كالسرقين في جواز بيعه ، وأما العذرة فلا ينتفع بها إلا إذا خلطت بالتراب فلا يجوز بيعها إلا تبعا للتراب المخلوط ، بخلاف الدم يمنع مطلقا
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 51)
لم يذكروا حكم دودة القرمز: أما إذا كانت حية فينبغي جريان الخلاف الآتي في دود القز وبزره وبيضه وأما إذا كانت ميتة وهو الغالب فإنها على ما بلغنا تخنق في الكلس أو الخل فمقتضى ما مر بطلان بيعها بالدراهم؛ لأنها ميتة. وقد ذكر سيدي عبد الغني النابلسي في رسالة أن بيعها باطل، وأنه لا يضمن متلفها؛ لأنها غير مال قلت: وفيه أنها من أعز الأموال اليوم، ويصدق عليها تعريف المال المتقدم ويحتاج إليها الناس كثيرا في الصباغ وغيره، فينبغي جواز بيعها كبيع السرقين والعذرة المختلطة بالتراب كما يأتي مع أن هذه الدودة إن لم يكن لها نفس سائلة تكون ميتتها طاهرة كالذباب والبعوض وإن لم يجز أكلها، وسيأتي أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع، وأنه يجوز بيع العلق للحاجة مع أنه من الهوام، وبيعها باطل.
وكذا بيع الحيات للتداوي: وفي القنية: وبيع غير السمك من دواب البحر لو له ثمن كالسقنقور وجلود الخز ونحوها يجوز وإلا فلا وجمل الماء قيل يجوز حيا لا ميتا والحسن أطلق الجواز اهـ فتأمل، ويأتي له مزيد بيان عند الكلام على بيع دود القز والعلق (قوله والبيع به) أي بما ليس بمال.
الموسوعة الفقهية الكويتية (9/ 154)
بيع سباع البهائم وجوارح الطير والهوام :
14 - اتفقت المذاهب على عدم جواز بيع سباع البهائم والطير ، إذا كانت مما لا ينتفع به بحال . فإن كانت مما ينتفع به جاز بيعه إلا الخنزير ، فإنه نجس العين ، فلا يجوز الانتفاع به ، فكذلك لا يجوز بيعه (2) .
لكنهم ذهبوا مذاهب في تفسير النفع الذي يجيز بيع السباع :
15 - فالحنفية - في ظاهر الرواية من مذهبهم - والمالكية في الراجح من المذهب ، ذهبوا إلى إطلاق النفع ، ولو بالجلد ، وبدون تفرقة بين المعلم وغيره .
ومن نصوص الحنفية في هذا : صح بيع الكلب ولو عقورا ، والفهد والفيل والقرد ، والسباع بسائر أنواعها ، حتى الهرة ، وكذا الطيور
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم